• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے جوانی میں کہا تھا

دریا تیرے ساحل تو جاگیر ہیں تیری ،گائوں کا کیا

گائوں ادھر برباد ہوئے تو گائوں ادھر آباد ہوئے

قدرت کے انتقام کی کوئی زبان نہیں ہوتی، مگر جب زمین، دریا اور آسمان مل کر ایک ہی وقت میں پکارنے لگیں تو انسان کا غرور پانی میں بہہ جاتا ہے ۔یہ سیلاب بھی ہماری اجتماعی کوتاہیوں، ناقص منصوبہ بندی اور لاپروا طرزِ حکمرانی کی وہ داستان ہے جو ہر بستی، ہر کھیت اور ہر آنسو میں لکھی جا چکی ہے۔جن اضلاع میں کبھی سبزہ لہراتا تھا، وہاں اب کیچڑ کی گہری تہیں ہیں۔ فلڈ رپورٹ کے مطابق ہزاروں گھر بہہ گئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں برباد ہوئیں، اور وباؤں نے تباہی کو مکمل کیا۔ مگر یہ اعداد و شمار اصل کہانی نہیں سناتے۔ اصل کہانی اس ماں کی آنکھوں میں ہے جو گود میں بچے کو اٹھائے مٹی کے ٹیلے پر بیٹھی ہے، اس امید میں کہ شاید کوئی سرکاری امدادی کشتی ادھر سے گزرے۔اس بار پانی نے صرف زمین نہیں، ضمیر بھی بہا دیا۔مگر اس المیے میں ایک پہلو ایسا بھی ہے جو ہمارے اندر کی انسانیت کو جگاتا ہے۔ جس گاؤں کے لوگ کبھی ایک دوسرے سے ناراض رہتے تھے، وہاں اب ایک دوسرے کے گھروں کی چھتیں بانٹی جا رہی ہیں۔ نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں پر ادویات پہنچا رہے ہیں، خواتین کھانے کے پیکٹ تیار کر رہی ہیں۔جہاں حکومت کی پہنچ ختم ہوئی، وہاں انسانیت نے قدم بڑھایا۔سیلاب کے بعد زندگی کی بحالی محض خیمے اور راشن پہنچانے کا نام نہیں۔ اصل بحالی وہ ہےکہ حکومت متاثرہ خاندانوں کو روزگار، تعلیم اور تحفظ دے۔ رپورٹ نے نشاندہی کی کہ بہت سے علاقوں میں آج بھی بچے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ اسکول پانی میں بہہ گئے اور دوبارہ تعمیر نہیں ہوئے۔ یہ وہ خاموش نقصان ہے جو اگلے کئی برسوں تک محسوس کیا جائے گا۔آج جب ہم اپنے شہروں میں مٹی سے اٹے کپڑوں والے مزدور، پناہ ڈھونڈتی عورتیں اور روتے ہوئے بچے دیکھتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ سیلاب صرف گاؤں نہیں بہاتا ۔ یہ ریاست کی غفلت، نظام کی کرپشن، اور شہریوں کی خودغرضی کو بھی بہا لے جاتا ہے۔مگر پانی کی سطح کے نیچے ایک امید بھی ہے ۔ وہ ہاتھ جو کسی دوسرے کو تھام لیتا ہے، وہ دل جو کسی اجنبی کے لیے رو پڑتا ہے۔ یہی شایدانسانیت ہے۔ اسی سے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد روشنی بن کر ابھرے۔

سیلاب کے ہولناک طوفان نے جب پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے 27اضلاع میں تباہی مچائی، تو اس ویلفیئر ٹرسٹ نے انسانی خدمت کی ایک مثال قائم کی۔ 200سے زائد دیہات اور قصبوں میں ریسکیو، خوراک، رہائش اور طبی امداد کی وسیع تر مہم شروع کی۔ 9لاکھ 46ہزار سے زائد پکے پکائے کھانے کے پیکٹس متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیے گئے۔ جہاں طبی سہولیات ناپید تھیں وہاں 16 میڈیکل کیمپ لگائے ۔ 5800مریضوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کی گئیں۔ 10 خیمہ بستیاں بسائی گئیں، 5 ہزار سے زائد بے گھر افراد کو عارضی رہائش فراہم کی گئی۔

مویشیوں کیلئے 60000کلوگرام چارہ مہیا کیا گیا لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کیلئے 20 کشتیوں کے ذریعے ریسکیو آپریشن کیا گیا۔ 6500 رضا کاروں نے دن رات کام کیا اور 1 لاکھ 62 ہزار سے زیادہ متاثرین تک امداد پہنچائی۔ امدادی سرگرمیاں خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں سے لیکر جنوبی پنجاب اور سندھ کے دور افتادہ دیہات تک پھیلی رہیں۔ بونیر میڈیکل کیمپ میں 2150 مریضوں کا علاج کیا گیا۔وہاں 5ہزار افراد کو کھانا بھی دیا گیا۔ راولپنڈی، مانسہرہ، سیالکوٹ اور جھنگ میں فوری ریسکیو اور طبی امداد کیساتھ ہزاروں خاندانوں تک پکا پکایا کھانا پہنچایا گیا۔ چنیوٹ، خانیوال، وہاڑی، بہاول نگر، بہاولپور اور لودھراں میں خیمہ بستیاں قائم ہوئیں جہاں مجموعی طور پر ہزاروں متاثرین کو رہائش، ادویات اور صاف پانی دیا گیا۔ملتان اور مظفرگڑھ کے علاقوں میں کارکنوں نے خطرناک حالات میں داخل ہو کر لوگوں کو نکالا، کھانے کے پیکٹس اور ادویات فراہم کیں۔ مظفر گڑھ میں 12ہزار افراد کو پناہ اور لاکھوں کھانے کے ڈبے دیے گئے۔

اوکاڑہ، قصور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، وزیر آباد، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، شیخوپورہ، نارووال اور پاکپتن کے متاثرہ دیہات میں بھی ہزاروں خاندانوں کو خوراک، پینے کا پانی اور طبی سہولتیں مہیا کی گئیں۔ سندھ کے متاثرہ اضلاع گھوٹکی، خیرپور اور سکھر میں بھی اس تنظیم نےامدادی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھایا، جہاں سینکڑوں متاثرین تک کھانا اور صاف پانی پہنچایا گیا۔یہ تمام کام منظم منصوبہ بندی، رضاکارانہ جذبے اور انسان دوستی کے تحت انجام پائے۔ اس ویلفیئر ٹرسٹ نے سیلاب کے دوران اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت کیا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں وہ عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔ خواہ وہ ریسکیو ہو، علاج ہو یا بھوک سے لڑتے انسانوں تک کھانے کا ایک پیکٹ پہنچانا۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قدرت جب آزمائش دیتی ہے تو ساتھ یہ بھی دیکھتی ہے کہ کون دوسروں کیلئے اٹھتا ہے۔اس ٹرسٹ نے دکھایا کہ سیلاب انسانوں کو بہا سکتا ہے، انسانیت کو نہیں۔

تازہ ترین