تحریر: نرجس ملک
ماڈل: جنت علی
ملبوسات: Sab Textille By Farrukh Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: محمد کامران
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
جاذب قریشی کی ایک بہت پیاری غزل ہے ؎ ’’اُس کا لہجہ کتاب جیسا ہے..... اور وہ خُود گلاب جیسا ہے..... دھوپ ہو، چاندنی ہو، بارش ہو..... ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے..... بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں..... سنگ بھی آفتاب جیسا ہے..... بھول جائو گے، خال وخد اپنے..... آئنہ بھی سراب جیسا ہے..... وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے..... ہجر بھی انقلاب جیسا ہے..... یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا..... بھولنا بھی عذاب جیسا ہے..... بے ستارہ ہے آسماں تجھ بِن..... اور سمندر سراب جیسا ہے۔‘‘ کچھ چہرے حقیقتاً گلاب جیسے ہی ہوتے ہیں کہ اُن کے دیکھے سے آنکھوں ہی کو نہیں، قلب و جاں کو بھی ایک ترو تازگی، راحت و شگفتگی کا سا احساس ہوتا ہے۔
کبھی یوں ہی سرِ راہ کوئی ایسا سُندر، کومل، مَن موہنا سا رُوپ سروپ دکھائی دے جاتا ہے، تو کبھی کوئی مَن کے سنگھاسن پر قابض و براجمان ہو کے اتنا پیارا ہوجاتا ہے کہ اُسے دیکھنا بھی عبادت معلوم ہوتا ہے، سکینتِ قلب کا باعث بن جاتا ہے۔ ویسے کہتے ہیں کہ ’’ہر شخص اپنے اندر ایک ایسا ماورائی، آفاقی، جادوئی، افسانوی سا حُسن رکھتا ہے، جسے صرف وہی دیکھ سکتا ہے، جو اُس سے سچّی و سُچّی محبّت کرتا ہے۔‘‘ اب وہ عاشقِ صادق کسی کو ملے، نہ ملے، یا مقدر، یا نصیب۔ مگر آزاد انصاری کا ایک شعر ہے ؎ طلبِ عاشقِ صادق میں اثر ہوتا ہے..... گو ذرا دیر میں ہوتا ہے، مگر ہوتا ہے۔ مطلب، تلاش عُمر بھر جاری رکھی جائے۔
ویسے قدرتی حُسن و دل کشی بھی کیا بڑی نعمت ہے۔ ایسا رُوپ رنگ کہ نگاہ اُٹھے، تو ہٹنا، پلٹنا بھول جائے۔ سرتاپا حُسن ہی حُسن، نُور ہی نُور۔ انتہائی متناسب خال و خد، نین نقش سے، موزوں قد کاٹھ، ڈیل ڈول تک، سیاہ لمبی، گھنیری زلفوں کی چھائوں سے کجرارے نینوں، کمان ابروئوں، جھالر سی پلکوں، ستواں ناک، گلاب کی پنکھڑی سے ہونٹوں، صُراحی دار گردن، گوری گوری کلائیوں، مخروطی انگلیوں اورہرنی، مورنی سی چال ڈھال تک سب آنکھوں کے رستے، دل و دماغ میں اُترتا، بستا سا جاتا ہو اور پھر سہانے پہ سہاگا، پہننا اوڑھنا، بننا سنورنا بھی خُوب آتا ہو۔
جامہ زیبی ایسی کہ جو پہنا سج گیا، جو اوڑھا، چھب ڈھب سے رَل مِل گیا۔ جورنگ وجود پہ سجے، کچھ اورکِھل گئے، جو انداز ہستی کا حصّہ بنے، جاوداں ہوگئے۔ جدھر سے گزرے، چاندنی بکھرنے، اُجالا سا ہونے لگے، فضائیں، ہوائیں عِطر بانٹنے، خوشبوئیں دینے لگیں، دریچے، دروازے آپ ہی آپ کُھلتے چلے گئے، گلیاں، کُوچے، رستے، بام ہی نہیں، منزل بھی جگمگا سی گئی۔ بلاشبہ، قسمت کے کچھ ایسے دھنی بھی ہوتے ہی ہیں، جن پرزندگی ضرورت سےکچھ زیادہ ہی مہربان ہوتی ہے اور قدرت کی یہ مہربانی گر اُنہیں خُود پر مغرور و نازاں کرنے کے بجائے دوسروں کے لیے نرم گو، نرم خُو، ہم درد و مہرباں کر دے، تو بس پھر تو حُسنِ خداداد دو آشتہ نہیں، ہزارآتشہ ہوجاتا ہے۔
سراپا حُسن کی ایک نرم، میٹھی مُسکان، شیریں گفتاری، شائستگی و شُستگی، اعلیٰ اخلاق وکردار تو جیسے سیدھا دل میں گھر کرتا ہے۔ بقول نظیر اکبر آبادی ؎ ’’سحر جو نکلا، مَیں اپنے گھر سے تو دیکھا اِک شوخ حُسن والا..... جھلک وہ مُکھڑے میں اُس صنم کے کہ جیسے سورج میں ہو اُجالا..... وہ زلفیں اُس کی سیاہ پُرخم کہ اُن کے بل اور شکن کو یارو..... نہ پہنچے سُنبل، نہ پہنچے ریحاں، نہ پہنچے ناگن، نہ پہنچے کالا..... ادائیں بانکی عجب طرح کی، وہ ترچھی چِتون بھی کچھ تماشا..... بھنویں وہ جیسے کھنچی کمانیں، پلک سِناں کش، نگاہ بھالا..... وہ آنکھیں مست اور گلابی اُس کی کہ اُن کو دیکھے تو دیکھتے ہی..... مئے محبّت کا اُس کی، دل کو ہو کیا ہی گہرا نشہ دوبالا.....وہ جامہ زیبی، وہ دل فریبی، وہ سج دھج اُس کی وہ قدِ زیبا..... کہ دیکھ جس پر فدا ہوں دل سے، وہ جن کو کہتے ہیں سروِ بالا..... پری رُخِ من شکر لبِ من و مے تو باز آ بہ پیشِ چشمم..... بیادِ سروِ تو بےقرارم نہالِ عشقت شدہ است بالا۔‘‘
ہماری آج کی بزم کی مہمان بھی کچھ ایسی ہی خوبیوں، اوصاف سے متصف معلوم ہوتی ہے۔ تب ہی تو پوری محفل ہی ’’گل و گلزار، جوبن پہ بہار‘‘ کے مثل معلوم ہورہی ہے۔ ایک تو ماورائی، افسانوی سا حُسن، بلا کی جامہ زیبی، سادگی میں پُرکاری اور پھرعِطربیزسی ملکوتی، سنہری مسکان۔ ہر طرزِ آرائش و زیبائش، رنگ و انداز نے خُوب سجنا، جچنا تو تھا ہی۔ ذرا دیکھیے تو دھانی سبز رنگ کا بالکل سادہ سا پہناوا بھی کیسے خزاں میں بہار، چمن میں نکھار کا سا تاثر دے رہا ہے۔
سیاہ کے ساتھ مسٹرڈ رنگ کا حسین امتزاج قیامت ڈھا رہا ہے، تو ہلکے جامنی کے ساتھ سُرخ کی پھبن میں بھی ایک اچھوتا، مگر بہت ہی حسین و دل نشین سا انتخاب ہے۔ فیروزی رنگ، تن پہ سج کے کچھ اور بھی دل رُبا، جاں فزا سا ہوگیا ہے، تو گہرے سُرخ کے ساتھ سیاہ رنگ کی آمیزش نے تو جیسے بزم کو شعلۂ جوالا ہی سا کردیا ہے۔ جاذب صاحب کا شعر؎ ’’اُس کا لہجہ کتاب جیسا ہے..... اور وہ خُود گلاب جیسا ہے‘‘، اگر مجسّم ہوتا، تو اِس سے بہتر طور پر تو ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے…؟؟