’’نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کسی کسی ہی کو دیتا ہے۔‘‘ یہ جملہ تھا کہ سنسناتا ہوا تیر، جو سیدھا دِل میں اُتر کے، دماغ جھنجھوڑ گیا اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’کیا واقعی نیکی کرنا بھی توفیق کا نتیجہ ہے، کیا ہر انسان نیکی نہیں کرسکتا؟‘‘جُملےکی گہرائی میں گئے، تو یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے اور اجرکمانے کاذریعہ اپنےخاص الخاص بندوں ہی کے لیے بناتا ہے۔
ہم روزانہ اَن گنت لوگوں سے ملتے ہیں۔ اُن میں سےکچھ واقعتاً ضرورت مند ہوتے ہیں اور چند ایک اپنی ضرورت بیان بھی کردیتے ہیں، لیکن ہم کبھی کبھار ہی اُن کی مدد کرتے ہیں، اکثر ٹال ہی دیتے ہیں، جب کہ شاذونادرمدد کرنا بھی ہمارے حالات و اختیارات یا شاید مُوڈ پر منحصر ہوتا ہے۔
دراصل، یہاں صرف ایسے افراد کا ذکر کرنا مقصود ہےکہ جو نیکی، مدد کرنے پرقادر ہونے کے باوجود اس عمل سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ اور ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ درحقیقت، خُود غرضی، بےنیازی، لاپروائی، وقت کی کمی اور دیگر وجوہ نے ہمیں سنگ دِل بنا دیا ہے۔ ہم لوگوں کی آہ وبکا بےتوجّہی سے دیکھتے، سُنتےگزرجاتے ہیں۔
سڑک پر کوئی حادثہ رُونما ہوتا ہے، لوگ مدد کے لیے پُکار رہے ہوتے ہیں، اس دوران سیکڑوں افراد کا جائے حادثہ کے پاس سے گزر ہوتا ہے، لیکن رُکنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، جب کہ مدد کے لیے آگے بڑھنے والےافراد کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر۔ اور اب تو بےحِسی کا ایک اور نمونہ، ویڈیوگرافی کی صُورت عام ہو رہا ہے۔ لوگ کوئی حادثہ، سانحہ دیکھ کے رُکتے بھی ہیں، تواپنے اپنےموبائل فونز سے ویڈیوز بنانے کے لیے۔ ایسے میں یہ جُملہ تو دِل میں کُھبنے والا ہی ہےکہ ’’نیکی کی توفیق بھی ربّ العالمین کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔‘‘
یاد رہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ہر روز دوسروں کے کام آکر نیکیاں اور اجر کمانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہم دِن بَھر میں نہ جانےکتنے ہی لوگوں کو غم، پریشانی اور خوف میں مبتلا دیکھتے ہیں، لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ان تمام کیفیات کوبالکل اُسی طرح محسوس کرتےہیں، جیسے ہم خُود بھی ان لمحات سے گزرے ہوں اور پھر کتنے ہاتھ اِن پریشان حال افراد کی تکالیف دُور کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں؟
دِین دار اور عابد و زاہد ہونا اِتنا مشکل نہیں، جتنا کسی کی تکلیف و پریشانی دُور کرنا۔ نیکی کی طاقت و استعداد رکھتے ہوئے اس سے پہلو تہی کی جائے، دامن بچایا جائے، تویہ درحقیقت انسانیت کی نفی ہے۔
پھر اکثر یہ جملہ بھی ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ ’’زندگی بہت مختصر ہے۔‘‘ تو کیوں نہ اس زندگی کو اَمر کردیا جائے۔ زندگی دولت کی ریل پیل، عُہدہ و منصب اور شُہرت و مقبولیت سے نہیں، بلکہ خدمتِ انسانیت اور نیکی کے کام کرنے سے اَمر ہوتی ہے۔
آپ اپنی مختصر سی کتابِ زیست میں ایسے اسباق اور باب رقم کردیں کہ وہ زندۂ جاوید ہوجائے، لیکن اس کےلیےمحنت ومشقّت درکار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ زندگی محض گزارنے کے لیے نہیں، اپنی استعداد اور استطاعت کےمطابق حالات بدلنے کے لیے عطا کی ہے اور یہ کام اس قدر مشکل بھی نہیں کہ ہم اسے نظر انداز کر دیں۔
آج کل مذاق کےنام سے بھی، جسےعُرفِ عام میں ’’پرینک‘‘ کہا جاتا ہے، ایک وبا عام ہے، جس میں عام افراد کو نِت نئے طریقوں سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ہر چند کہ زیادہ تر پبلک پرینکس سے بد تہذیبی اور گھٹیا پن جھلکتا ہے، لیکن ان میں سے بعض پُرمقصد مذاق (Pranks with a purpose) ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں مستحق لوگوں تک رسائی حاصل کر کے ان کی ایسے عُمدہ طریقے سے مدد کی جاتی ہے کہ یہ مناظر دیکھ کر نہ صرف دِل خوش ہوتا ہے، بلکہ مذاق کرنے والوں کے اس احسن اقدام پر اُن کے لیے دل سے بے ساختہ دُعائیں بھی نکلتی ہیں۔
لہٰذا، کبھی کبھار بےغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کر کے ڈھیروں دُعائیں بھی لے لیا کریں۔ اگرآپ کو نوازا گیا ہے، تو دوسرں کو بےغرض ہو کر نوازیں اور ان سے بدلے کی امید نہ رکھیں۔ گرچہ اصل نیکی تو وہی ہے کہ جوچُھپ کرکی جائے، لیکن آج کے دَور میں علانیہ نیکی کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر مرتبہ کوئی علانیہ کام دکھاوا یا نمود ونمائش ہی نہیں ہوتا، بلکہ کبھی کبھار دوسروں کے لیے ترغیب کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
مثبت سوچ شخصیت پر مثبت اثرات مرتّب کرتی ہے۔ لہٰذا، اگر اب تک آپ نیکی و مدد کرنے سے کسی بھی وجہ سے قاصر رہے ہیں، تو اب قدم بڑھائیں اور ضرورت مندوں کی مدد کی خاطر اپنی ہمّت و استعداد کے مطابق ہر ممکن حد تک کچھ کر گزریں۔