سیاست معاشرے کے نظم و نسق اور اجتماعی زندگی کے اصول طے کرنے کا نام ہے۔ایک مہذب معاشرہ اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جب اس کی سیاسی قیادت برداشت، مکالمے اور اتفاقِ رائے جیسے جمہوری اصولوں پر کاربند ہو۔لیکن جب سیاست میں ضد، انا اور ہٹ دھرمی کو جگہ مل جائے تو قومی مفاد پسِ پشت چلا جاتا ہے، ادارے کمزور ہوجاتے ہیں اور قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں جمہوریت کو اکثر اوقات نقصان سیاسی جماعتوں نے نہیں بلکہ بعض سیاسی رہنماؤں کی ہٹ دھرمی کے باعث پہنچا ہے۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون بھی ایک ضدی قسم کے سیاست دان ہیں، جسکے باعث فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکا ہے۔دو سالوں میں پانچ وزرائے اعظم پارلیمنٹ میں اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی کے باعث اقتدار چھوڑ چکے ہیں۔حال ہی میں 27 روز بعد مستعفی ہونے والے وزیراعظم کو صدر میکرون نے دوبارہ حکومت سازی کے لیے نامزد کر دیا ہے۔قبل ازیں صدر میکرون نے گزشتہ سال ایک سیاسی جوا کھیلا جو الٹا پڑ گیا۔ان کے پے در پے غلط فیصلوں سے بجٹ منظور کرنا اور حکومت بنانا مشکل ہو گیا ہے۔صدر میکرون نے گزشتہ سال شطرنج کی طرح پارلیمانی انتخابات قبل از وقت کروا دیے تاکہ وہ اپنی اکثریت بحال کر سکیں،لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔پارلیمنٹ Hung ہو گئی یعنی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی۔
دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلیLe Penجو پہلے راؤنڈ میں پہلی پوزیشن پر تھی،ایک ہفتہ بعد دوسرے راؤنڈ میں تیسری پوزیشن پر آ گئی۔جبکہ ریپبلکنزLRنے خاصی نشستیں حاصل کیں۔موجودہ صورتحال میں صدر میکرون نے سباستیان لی کورنیو کو دوبارہ وزیراعظم مقرر کیا،حالانکہ انکی پچھلی حکومت چند روز پہلے ہی تحلیل ہوئی تھی۔اب لی کورنیو نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں،مگر ان کے اتحادی یا تو خاموش ہیں یا ساتھ دینے سے انکار کر چکے ہیں۔خاص طور پر ریپبلکن پارٹی نے واضح کیا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی،بلکہ صرف قانون بہ قانون تعاون کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ بحران مزید گہرا ہو رہا ہے۔بجٹ ڈیڈ لائن قریب ہے انہیں منگل تک 2026ءکا بجٹ پیش کرنا ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو حکومتی نظام مفلوج ہو سکتا ہے۔کابینہ ابھی تک مکمل نہیں بنی،اور اپوزیشن جماعتیں اعتماد کا ووٹ گرانے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔عوامی سطح پر بھی میکرون کی مقبولیت کم ہوئی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیںکہ انہوں نے ایک سیاسی جوا کھیلا جو الٹا پڑ گیا۔اب ان کے وزیراعظم ایک کمزور، اقلیتی حکومت بنانے کی کوشش میں ہیں،جس کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔اگلے سال مارچ-اپریل میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیںجو اس شطرنج کےکھیل سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔جمہوریت کی بنیاد مکالمے، برداشت، اور اتفاقِ رائے پر رکھی گئی ہے۔اختلافِ رائے جمہوریت کی روح ہے،لیکن جب اختلاف دشمنی میں بدل جائے اور سیاسی رہنما اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے لگیں،تو یہی جمہوریت اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہے۔اگر کوئی سیاست دان یا سیاسی جماعت اپنی ضد پر اڑی رہےاور دوسروں کی آرا کو سننے یا قبول کرنے سے انکار کرےتو پارلیمانی نظام مفلوج ہو جاتا ہےاور قومی اتفاقِ رائے ٹوٹ جاتا ہے۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز پاکستان بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔یہ وہ زہریلا رویہ ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے زوال کا آغاز ثابت ہوتا ہے۔جمہوریت کا حسن تو اس میں ہے کہ مختلف آرا کو سنا جائے، ان پر غور کیا جائے اور بہتر فیصلے کیے جائیں۔لیکن جب ضد اور ہٹ دھرمی غالب آ جائے تو فیصلے ذاتی انا کی بنیاد پر ہونے لگتے ہیں، نہ کہ قومی مفاد کے مطابق۔اسلامی تعلیمات میں مشاورت اور اعتدال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(اور ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں) سورۃ الشوریٰ ۔نبی کریم ﷺ نے بھی اکثر اہم مواقع پر صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔یہی طرزِ عمل جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔ضد اور ہٹ دھرمی نہ صرف غیر جمہوری رویہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔
اصولی استقامت اور ہٹ دھرمی میں فرق یہ ہے اکثر لوگ اصولی استقامت اور ہٹ دھرمی میں فرق نہیں کر پاتے۔اصولی استقامت وہ ہے جب کوئی شخص حق، انصاف اور قومی مفاد کے لیے اپنے موقف پر قائم رہے۔اس کی بنیاد دلائل، سچائی اور دیانت پر ہوتی ہے۔اس کے برعکس ہٹ دھرمی اس وقت جنم لیتی ہےجب کسی شخص کا مقصد اپنی انا کی تسکین، ذاتی مفاد یا طاقت کا حصول ہو۔جب کسی ملک و قوم کے مفاد کا مسئلہ درپیش ہواور کوئی فرد یا گروہ اصولوں کے نام پر ڈٹ جائےتو یہ دراصل اصولی استقامت نہیں بلکہ ہٹ دھرمی کے زمرے میں آتا ہے۔ریاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ خدمت اور استحکام ہوتا ہے۔سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ مکالمے، برداشت اور مشاورت کے کلچر کو فروغ دیں۔اگر کسی کا موقف حق اور انصاف پر مبنی ہےاور وہ دلائل کے ساتھ اس پر قائم رہتا ہے،تو یہ ہٹ دھرمی نہیں بلکہ اصولی استقامت ہے اور یہی رویہ قابلِ تحسین ہے۔