• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے بنجر پہاڑوں کے درمیان، جہاں ریت کے ذرے بھی وقت کی طرح خاموش ہیں، چمن کا آسمان ان دنوں بارود کی گواہی دیتا ہے۔ گولہ باری کی وہ گونج جو رات کی ریگزار ہوا میں بکھری، صرف ایک حادثہ نہیں تھی — یہ اس بڑے اور گہرے کھیل کا تسلسل ہے جس کے خفیہ تخت پر بیٹھے ہاتھ کابل میں نہیں، بلکہ دہلی میں جنبش کرتے ہیں۔یہ جھڑپیں کسی عقیدے یا ایمان کی نہیں، بلکہ مفادات کے اُس جال کی بازگشت ہیں جو بھارت نے خطے کے سیاسی نقشے پر ایک نئی آگ کے طور پر بھڑکا دی ہے۔ طالبان، جو کبھی مذہب کے پرچم تلے لڑنے کا دعویٰ کرتے تھے، اب خود ایک پراکسی شطرنج کے مہرے بن چکے ہیں — ان کے ہتھیاروں کی سمت بدل دی گئی ہے، ان کے نعرے خرید لیے گئے ہیں۔

سُوئی کاریز کی رات گولیوں کے شور سے جاگ اٹھی۔ سرحد پار سے آنے والی بارود کی سانسیں چمن کی مٹی میں پیوست ہو گئیں۔ مارٹر گولوں نے زمین کو لرزا دیا، اور فضا میں دھوئیں کے ساتھ ایک سوال معلق رہا: کیا اب یہ جنگ ایمان کی نہیں، ایجنسیوں کی ہے؟پاکستانی افواج نے بھرپور جواب دیا — آہنی ہاتھ سے، مگر صبر کے ساتھ۔ درجنوں طالبان جنگجو مارے گئے، انکے کئی ٹھکانے ملبے میں دفن ہو گئے۔ لیکن اس بار جنگ کا زخم میدانِ جنگ سے باہر بھی پھیل گیا۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی، اسکول بند، اور پولیو مہم معطل — گویا جنگ نے بچوں کے کندھوں پر بھی اپنی تھکن رکھ دی۔

یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ اب افغانستان کا اقتدار مذہبی نہیں، تزویراتی رنگوں میں رنگا جا چکا ہے۔ طالبان کے نظریے میں اب کابل کی گلیوں سے زیادہ دہلی کے سفارت خانوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

قطر کی ثالثی سے جو عارضی سیز فائر طے پایا، وہ اتنا ہی کمزور ہے جتنا کسی زخمی سپاہی کی سانس۔ اسلام آباد نے کہا — ’’یہ جنگ بندی طالبان کی درخواست پر ہوئی‘‘ اور طالبان نے جواب دیا — ’’یہ پاکستان کے اصرار پر ممکن ہوئی‘‘۔دو سچوں کے درمیان جو جھوٹ کھڑا تھا، وہی سب سے طاقتور تھا۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی آواز میں ایک زخمی ریاست کی گونج تھی’’افغان طالبان اب دہلی کے پراکسی ہیں۔ یہ جنگ افغانستان کی نہیں — بھارت کے مفادات کی ہے‘‘۔ان کا لہجہ واضح تھا’’پاکستان امن چاہتا ہے، مگر امن کے نام پر کمزوری نہیں دکھائے گا۔اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب فیصلہ کن ہوگا — اور تاریخ گواہ ہوگی کہ ہم خاموش نہیں رہے‘‘۔چمن کی مٹی جانتی ہے کہ یہ پہلا زخم نہیں۔ 11اکتوبر کو بھی یہی فضا، یہی بارود، یہی جنازے۔ 23پاکستانی فوجی شہید ہوئے، اور اس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی میں دو سو کے قریب طالبان جنگجوؤں کو نیست و نابود کیا۔ لیکن امن کا جو وقفہ آیا، وہ دراصل آنے والے طوفان کی خاموشی تھی۔اسی دوران کابل سے ایک اور خبر اُبھری — افغان وزیرِ خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ۔وہی دہلی جسے طالبان کبھی کفر کا دارالحکومت کہا کرتے تھے، اب ’سفارتکاری کی منزل‘ بن چکا ہے۔یہ دورہ علامتی نہیں، سفارتی اعلان تھا — کہ کابل کا جھکاؤ اب مشرق کی بجائے جنوب کی طرف ہے۔یہ وہی لمحہ تھا جب چمن کے بادلوں میں پہلی بار دہلی کے سایے دکھائی دیے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس خاموش تبدیلی کو پڑھ لیا ہے۔ سفارتی اصطلاحوں کے پیچھے ایک تلخ سچ چھپا ہے — طالبان کا جھکاؤ اب اس سمت ہے جہاں پاکستان کی سلامتی ایک سفارتی قیمت بن چکی ہے۔چمن میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے بعد پاکستان نے اسپن بولدک، قندھار، اور کابل کے اطراف ہدفی کارروائیاں کیں۔ فتنہ الخوارج کے نام سے پہچانے جانے والے دہشت گرد گروہوں کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

ISPR کے مطابق ان کارروائیوں میں بیس سے زائد طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔افغان حکومت نے اسے ’پاکستان کی جارحیت‘کہا، مگر کابل کے بیان میں وہی لَے تھی جو دہلی کی نرمی سے سنبھالی جاتی ہے۔طالبان کے دورِ اقتدار کے بعد پاکستان نے امید کی تھی کہ کابل دہشت گردی کی راہوں کو بند کرے گا، مگر طالبان نے اُن راہوں کو مزید چوڑا کر دیا — وہاں اب نہ صرف TTP کے کیمپ ہیں، بلکہ بھارت کے تربیت یافتہ افسران کے خفیہ مشیر بھی۔اب سرحد کے اس پار ایک خاموش انقلاب برپا ہے — نظریے کا، سمت کا، ضمیر کا۔ طالبان جو کبھی پاکستان کے سائے میں پروان چڑھے، آج اسی سائے سے بھاگ رہے ہیں۔

خواجہ آصف کے الفاظ میں یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے، ’’ایک سانس جو اگلی گولی سے پہلے لی جا رہی ہے۔ہم امن چاہتے ہیں مگر غلامی نہیں۔ اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم وہی کریں گے جو ایک زندہ قوم کرتی ہے — دفاع، وقار اور جواب‘‘۔

چمن اب محض ایک سرحد نہیں رہا، یہ ایک تمثیل بن چکا ہے — ایک ایسی لکیر جو بتاتی ہے کہ کس طرح مفادات ایمان پر غالب آتے ہیں۔ کابل میں اب دہلی کی بازگشت ہے۔شاید آنے والے دنوں میں یہ جنگ بندوقوں سے نہیں، بیانیوں سے لڑی جائے گی۔لیکن ایک بات طے ہے — جب کسی دریا میں زہر گھول دیا جائے تو اس کے بہاؤ میں امن کا امکان نہیں رہتا۔

تازہ ترین