شمالی امریکا میں ہونے والی ایک بڑی تحقیق میں خون کے ٹیسٹ کے ذریعے 50 سے زائد اقسام کے کینسر کی تشخیص کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں، جس سے کینسر کی ابتدائی اور تیز تر تشخیص کی نئی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔
یہ آزمائشی تحقیق امریکا اور کینیڈا کے 25 ہزار بالغ افراد پر ایک سال تک جاری رہی، نتائج کے مطابق یہ ٹیسٹ ان کینسر اقسام کی بھی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہا جن کے لیے فی الحال کوئی باقاعدہ اسکریننگ پروگرام موجود نہیں، جس میں اوورئین، جگر، معدہ، مثانہ اور لبلبے (Pancreas) کے کینسر شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق نصف سے زائد کیسز ابتدائی مرحلے پر دریافت ہوئے، جب علاج کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، جبکہ 99 فیصد سے زائد ایسے افراد جن کا نتیجہ منفی آیا، ان میں واقعی کینسر موجود نہیں تھا۔
یہ ٹیسٹ گلیری (Galleri) کہلاتا ہے، جسے امریکی کمپنی گریل (Grail) نے تیار کیا ہے، یہ خون میں پائے جانے والے کینسر کے ڈی این اے کے ذرات کا سراغ لگا کر کام کرتا ہے، یہ ٹیسٹ برطانیہ کے قومی صحت کے نظام (NHS) میں بھی آزمائشی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
تحقیق میں شامل 62 فیصد افراد جن کا ٹیسٹ مثبت آیا، ان میں بعد میں کینسر کی تصدیق ہوئی، جبکہ 90 فیصد کیسز میں ٹیسٹ نے بیماری کی صحیح جگہ کی نشاندہی بھی کی۔
مرکزی محقق ڈاکٹر نیما نبویزادے (اورگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی) کے مطابق یہ نتائج کینسر کی اسکریننگ کے طریقوں میں ایک بنیادی تبدیلی لاسکتے ہیں، کیونکہ یہ بیماری کو اس وقت شناخت کرتا ہے جب علاج کے کامیاب یا حتیٰ کہ مکمل شفا یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
جب اس ٹیسٹ کو بریسٹ، آنت، پھیپھڑوں اور سروائیکل کینسر کی موجودہ اسکریننگ کے ساتھ ملایا گیا تو کینسر کی تشخیص کی شرح سات گنا بڑھ گئی۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ نتائج حوصلہ افزا ہیں، لیکن ابھی مزید تحقیق ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا یہ ٹیسٹ کینسر سے اموات میں حقیقی کمی لا سکتا ہے یا نہیں۔
یہ تحقیق یورپین سوسائٹی فار میڈیکل اونکولوجی کانگریس میں برلن میں پیش کی جارہی ہے، تاہم مکمل نتائج تاحال کسی سائنسی جرنل میں شائع نہیں ہوئے۔
برطانوی NHS میں جاری ایک تین سالہ ٹرائل (140,000 شرکاء پر مشتمل) کے نتائج آئندہ سال متوقع ہیں، اور اگر نتائج مثبت رہے تو یہ ٹیسٹ 10 لاکھ مزید افراد کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔