بچّوں کی شخصیت اور مستقبل کی تعمیر والدین، اساتذہ اور معاشرے کی مشترکہ ذمّے داری ہے۔ کینیڈا کے ممتاز ماہِر نفسیات، پروفیسر جارڈن پیٹرسن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو حد سے زیادہ لاڈ پیار سے نہ بگاڑیں بلکہ اُنہیں ایک متوازن اور ذمّے دار انسان کے طور پر پروان چڑھائیں۔
اُن کے مطابق، اگر کوئی بچّہ یہ سمجھنے لگے کہ کائنات کا مرکز صرف وہی ہے، تو وہ نرگسیت (Narcissism) کا شکار ہوسکتا ہے۔ نرگسیت، دراصل ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے، جس میں انسان اپنی ذات کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھنے لگتا ہے، دوسروں کی رائے اور جذبات نظرانداز کرتا ہے اور خودغرضی، غرور کا رویہّ اپنا لیتا ہے۔
والدین کی پرورش کا پہلا سبق یہ ہونا چاہیے کہ اگر بچّہ غلطی کرے، تو اُسے پیار سے ضرور سمجھایا جائے، مگر اصولوں پر سمجھوتا قطعاً نہ ہو۔ یاد رہے، صرف پیار و محبّت، تعریف و توصیف ہی کافی نہیں، حدود متعین کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک متوازن تربیت وہی ہے کہ جو بچّے کو خوف میں مبتلا کرے اور نہ ہی حد سے زیادہ بگاڑے۔
اگر کسی بچّے کو بچپن میں محنت، صبر، احترامِ انسانیت اور شُکر گزاری جیسی عادات کی تعلیم دی جائے، تو یہ درس اُسے مستقبل میں ایک کام یاب انسان، ذمّے دار شہری اور قائد بناسکتا ہے۔ بچّے کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ، روشن مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی سماجی، رویّہ جاتی، تعلیمی، دینی اور روحانی تربیت ایک ایسی امانت ہے، جو والدین، اساتذہ اور معاشرہ مل کرسنبھالتے ہیں۔
والدین کی گود محبّت اور اصول کا پہلا مدرسہ ہے، تو اساتذہ علم، کرداراوراخلاق کی بنیاد رکھتے ہیں، جب کہ معاشرہ بچّے کی سوچ اور رویّے کو عملی زندگی میں ڈھالتا ہے۔ دینی و روحانی تربیت بچے میں ایثار، شُکر گزاری اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا کرتی ہے، تو معیاری تعلیم اور مثبت رویے اسے معاشرے کے لیے کارآمد بناتے ہیں اور جب یہ تینوں حلقے مل کر اپنی ذمّے داری ادا کریں، تو بچّے نہ صرف اچّھی شخصیت کے مالک بنتے ہیں بلکہ قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی ثابت ہوتے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ کےذیلی اداروں، یونیسیف اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، دُنیا بَھر میں بچّوں کو بےشمار سماجی و جسمانی مسائل کا سامنا ہے۔ ان اداروں کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، تقریباً تین سوملین سے زائد بچّے انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ کروڑوں بچّے تعلیم سے محروم ہیں۔ غذائی قّلت، کم عُمری کی شادیاں، تشدّد، نفسیاتی دباؤ اور جنسی استحصال جیسےمسائل اُن کی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق، دُنیا کا ہر ساتواں نوجوان کسی نہ کسی درجے میں ذہنی دباؤ یا ڈیپریشن کا شکارہے۔ اِن اعداد و شمارکی روشنی میں بچّوں کی صحت، تعلیم اور نفسیاتی بہبود کو قومی پالیسیز میں ترجیحاً شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین، اساتذہ اور حکومتیں مل کر ہی ان کا مستقبل محفوظ بنا سکتی ہیں۔
پاکستان کا منظرنامہ اس حوالے سے مزید تشویش ناک ہےکہ یونیسیف اور دیگر مُلکی رپورٹس کے مطابق، ہمارے مُلک میں تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ بچّےاسکول نہیں جاتے، جو دنُیا کی بلند ترین شرح میں شمار ہوتی ہے۔ کم عُمری کی شادیاں، بچّوں سے مزدوری، غذائی قّلت اور نفسیاتی دباؤ جیسے مسائل اُن کی شخصیت سازی اور نشوونما بُری طرح متاثر کررہے ہیں۔
پانچ سال سےکم عُمر ہرتین میں سے ایک بّچہ غذائی قّلت (stunting) کا شکار ہے، جب کہ نوجوانوں میں ڈیپریشن اور سوشل میڈیا کے غیر متوازن استعمال کے اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ شہروں اور دیہات کے درمیان سہولتوں کا فرق بھی بچّوں کےمواقع محدود کررہا ہے۔
عملی طور پر والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ محبّت اوراصولوں کاامتزاج تشکیل دیں۔ بچّے کو غلطی پر پیار سے سمجھائیں، مگر ضرورت پڑے، تو سختی بھی کریں تاکہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھے۔ بچّوں کو دوسروں کی عزّت، خدمتِ خلق اورمحنت و صبر کی اہمیت سکھانا لازمی ہے تاکہ وہ عملی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں۔
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچّوں میں اخلاقی اقداراورسماجی ذمّےداریوں کا احساس بھی اُجاگر کریں۔ اب ہمارے معاشرے کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگرآج بچّوں کو نظر انداز کیا گیا، تو کل یہ مسائل پورے سماج کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
نیز، یہ حقیقت تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت صرف اُن کی خوشی کے لیے نہیں بلکہ معاشرے اور قوم کی بھلائی کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج کے بچّے کل کے شہری، والدین، محقّقین اور رہنما ہیں۔ اگر ہم نے اُنہیں محّبت، علم، اخلاق اور توازن کے ساتھ پروان چڑھایا، تو یہی بچّے پاکستان اور دُنیا کے بہتر مستقبل کی ضمانت بنیں گے۔ ایک ایسا مستقبل کہ جس میں انسانیت، انصاف، علم اور اخلاقیات کے چراغ روشن ہوں گے۔
( مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سندھ ہیں)