ہم پاکستانی، افسوس کہ دنیا کے احوال پر نگاہ رکھنے کے عادی نہیں۔ ہم اپنے گرد کے دائرے میں اتنے محصور ہیں کہ زمانے کی کروٹوں کی صدا ہم تک پہنچتےپہنچتے مدھم پڑ جاتی ہے۔ حالانکہ اقوام کی تقدیریں ایک دوسرے سے یوں بندھی ہیں جیسے دریا کی موجیں، ایک کی سمت بدلے تو دوسرا بھی بہاؤ محسوس کرتا ہے۔فرانس میں جو ہوا، وہ محض فرانس کا واقعہ نہیں۔وہ ایک اشارہ ہے، ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان نے بھی فرانس سے تجارت کی، معاہدے کیے، جہاز خریدے، سودے طے پائے مگر ان سودوں کے گرد بھی وہی دھند چھائی رہی جو طاقت اور مفاد کی راہوں پر اترتی ہے۔ خرید و فروخت کے ان معاملات میں کمیشن کی بازگشت ہمیشہ رہی، مگر قانون کی کتاب خاموش رہی، جیسے کسی نے اس کے صفحے بند کر دیے ہوں۔
کرنل فذاقی کا قصہ بھی برسوں کی دھول میں دب کر رہ گیا، اور اب نکولس سرکوزی کی سزا نے پھر وہ زنگ آلود دروازہ کھول دیا ہے جہاں ماضی کے راز سوتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف فرانس کا نہیں، ایک تنبیہ ہے کہ وقت کا قلم خاموش نہیں رہتا۔ آج اگر عدالت پیرس میں جاگی ہے تو کل شاید کسی اور دارالحکومت میں آنکھ کھولے۔کبھی کبھی تاریخ اپنے فیصلے دیر سے لکھتی ہے، مگر جب لکھتی ہے تو وہ نہ صرف افراد کو بلکہ قوموں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیتی ہے۔یہی لمحہ سوچنے کا ہے کہ اگر سرکوزی کو قذافی کے زر خریدار ہونے پر سزا مل سکتی ہے، تو وہ دروازے ہمارے لیے کیوں بند رہیں جہاں شفافیت کے چراغ بجھائے گئے؟
نکولس سرکوزی ۔ وہی سرکوزی جو کبھی ایلیزے پیلس کے ستونوں کے بیچ طاقت کی چمک میں نہاتا تھا، آج لا سانتے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک اکیلا انسان بن گیا ہے۔ یہ محض ایک شخص کی قید نہیں، بلکہ جمہوریت کے ضمیر پر پڑنے والی وہ لرزتی ہوئی دستک ہے جس میں سوال بھی ہیں، عبرت بھی۔
قومیں جب انصاف کے پلڑے برابر رکھتی ہیں، تو وہ اپنے ماضی سے گواہی مانگتی ہیں۔ پچھلی بار یہ صدائے عدل سنہ 1945 میں بلند ہوئی تھی، جب فلپ پیٹن کو غداری کے جرم میں زنجیروں کی امان ملی تھی۔ آج، اسی سرزمین پر، ایک اور نام ترازو میں تول دیا گیا ہے۔ یہ پانچ برس کی سزا محض عدد نہیں ۔ یہ وہ لمحہ ہے جب اقتدار کے بادل چھٹ گئے اور انسان کی اصلیت سامنے آئی۔ وہ صورت جس میں غرور، فریب، تردید کے سائے ہیں۔ سرکوزی کہتا ہےکہ مجھے یقین ہے کہ ایک دن سچ ظاہر ہو گا، مگر نہیں جانتا کہ اس کی قیمت کیا ہو گی۔ یہ الفاظ نہیں، اعترافِ نیم جرم ہیں ۔ جیسے کوئی راہ گم کردہ مسافر رات کے اندھیرے میں سورج سے سوال کرے۔انہیں جیل کے ایک گوشے میں، نو مربع میٹر کے کمرے میں رکھا گیا ہے ۔ وہی کمرہ جہاں انسان اپنے اعمال سے زیادہ اپنے ضمیر کا سامنا کرتا ہے۔ ان کے گرد وہی مجرم ہیں جن کے خلاف وہ کل قانون کی بات کرتے تھے ۔ آج وہ خود قانون کی گرفت میں ہیں، مگر اب بھی کہتے ہیں:’میں بے گناہ ہوں‘۔ ان کے حامی چیخ رہے ہیں کہ عدالت نے انصاف نہیں کیا کہ چار میں سے تین الزامات سے بری ہونے والا شخص صرف ایک سازش کے الزام پر کیوں مجرم ٹھہرایا گیا؟ یہ سزا انتقام ہے، عدل نہیں۔ مگر اے اہلِ فکر! کیا تاریخ کا ہر فیصلہ ہمارے مزاج کے مطابق ہونا ضروری ہے؟ کیا قانون کا ترازو ہماری خواہشات کے بوجھ سے جھک جانا چاہیے؟
فرانسیسی عدالت نے ایک جملہ رقم کیا کہ قانون کے سامنے کوئی تاج نہیں، کوئی استحقاق نہیں۔ یہی جمہوریت کا جوہر ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ عدالتوں کے دروازے اکثر طاقت کے شور سے لرزتے ہیں، اور انصاف کی کرسی پر کبھی کبھی سیاست کا سایہ بیٹھ جاتا ہے۔ سرکوزی کے خلاف الزامات سنگین تھے کہ انھوں نے معمر قذافی سے وہ زر قبول کیا جو کسی قوم کے لہو سے کشید ہوا تھا، اور اسے انتخابی مہم کے تیل کے طور پر جلایا۔ استغاثہ کہتا ہے، یہ سازش تھی۔مدعا علیہ کہتا ہے، یہ انتقام ہے۔ اور تاریخ، خاموش مگر بیدار، دونوں کو دیکھ رہی ہے۔
یہ سزا، چاہے عدل ہو یا انتقام، فرانس کے دل میں وہ دراڑ نمایاں کر گئی ہے جو عرصے سے چھپی ہوئی تھی ۔ دائیں اور بائیں بازو کے نظریات، امیر اور عوام، اقتدار اور قانون کے بیچ کی وہ لکیریں جو اب خندق بن چکی ہیں۔ میرین لو پین کے بعد سرکوزی ۔ گویا فرانس کے سیاسی ایوان میں زلزلے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بائیں بازو والے اسے امیر طبقے کے زوال کی علامت سمجھتے ہیں، دائیں بازو والے اسے سازش کی گھڑی قرار دیتے ہیں اور بیچ میں کھڑا عام شہری یہ سوچتا ہے کہ کیا واقعی قانون سب کیلئے برابر ہے؟اب سرکوزی نہ طاقت کے مالک ہیں، نہ عہدے کے، مگر ان کا مقدمہ فرانس کے ضمیر پر نقش بن چکا ہے۔ یہ فیصلہ شاید ایک شخص کے خلاف آیا ہو، مگر اس کی گونج ایک پوری تہذیب کے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اقتدار فانی ہے، اور قانون وہ دریا ہے جسکے سامنے کوئی بندِ زر یا بندِ غرور زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ تخت کے نیچے بھی زمین ہے اور زمین پر عدل کبھی دفن نہیں ہوتا۔
اب سرکوزی کی داستان، فرانس کی سیاست کی کتاب کا آخری ورق نہیں، بلکہ ایک حاشیہ ہے جس پر وقت نے لکھا ہے’’یہ وہ قیمت ہے جو اقتدار سے زیادہ خودی کو عزیز رکھنے والے ادا کرتے ہیں‘‘۔یہ سزا کسی قیدی کی نہیں، بلکہ ایک مغرور دور کی ہے ۔ جس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ تخت کے اوپر قانون نہیں ہوتا۔ اور جب قانون بیدار ہوا، تو تاجدار زمین پر آ گرا۔ بے شک اقتدار کی معراج دراصل زوال کا آغاز ہے، اور وہ قومیں زندہ ہیں جن کے ایوانوں میں انصاف کی صدا طاقت کی گونج سے بلند رہتی ہے۔ پاکستان میں پتہ نہیں ایسا ہونا کب شروع ہوگا۔