• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی نگاہیں آج مشرقِ وسطیٰ پر جمی ہیں، جہاں گزشتہ دو برسوں سے غزہ کی وادیوں میں انسانیت سسک، بلک رہی ہے۔ دورِ حاضر کا کون سا ایسا ظلم، جبر و استحصال ہے، جو وہاں روا نہیں رکھا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک تحقیقاتی کمیشن کے مطابق’’اسرائیل نے غزہ میں نسل کُشی کی ہے۔‘‘ 

یہ ایک ایسا گھناؤنا چیلنج ہے کہ انسانی ضمیر اور بین الاقوامی عدالت، دونوں کو نعرۂ حق بلند کرنا چاہیے۔ اسرائیل، فلسطین تنازعے میں امریکی ثالثی کی کوششیں وقتی طور پر جنگ بندی کا باعث بنیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ امن حقیقی ہے یا محض عالمی دباؤ کا نتیجہ؟ یہ وہ لمحہ ہے، جہاں عالمی طاقتوں کا ضمیر اور مسلم دنیا کا اتفاق، دونوں آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل کی سیاسی قیادت کے لیے جنگ اقتدار کی بقا ہے، جب کہ فلسطین کے لیے بقا، خود جنگ کا نام ہے۔ یہی تضاد انسانی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کی جڑ ہے۔

مئی 2025ء میں بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے اور اپنی اِس بدمعاشی کو دنیا کے سامنے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے جواز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، مگر درحقیقت یہ جارحیت کا ایک نیا باب تھا۔ پاکستان نے تحمّل و بردباری، مگر عزم وہمت کے ساتھ جواب دیا اور ہمارے اِس اقدام نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا بھی نہیں کرے گا۔

چند دنوں کی شدید کشیدگی کے بعد، دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کیا، مگر اس تصادم نے جنوبی ایشیا کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ عالمی منڈیوں نے اضطراب دیکھا، سفارتی لہجوں میں سرد لمہری آئی اور دنیا نے محسوس کیا کہ ایٹمی خطّہ اگر بھڑک اُٹھا، تو اس کے شعلے سرحدوں سے آگے جائیں گے۔ اب جنوبی ایشیا میں سوال یہ نہیں کہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ امن کیسے ممکن بنایا جائے؟ یہ صرف دو ممالک کا معکہ نہیں، بلکہ ایک عالمی دوڑ ہے۔ جہاں سیاسی بلاکس، طاقت کا توازن اور انسانی حقوق سب ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ 

چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چُکا ہے۔ مغربی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ میں اپنی گرفت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر نئی دنیا میں مفادات، نظریات سے زیادہ طاقت وَر ہو چُکے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کا قریب آنا، جو کبھی ایک دوسرے کے مخالف بلاک کے ستون سمجھے جاتے تھے، دراصل مفادات کی نئی تعریف ہے۔ 

صدیوں کی رقابت کے بعد جب ریاض اور تہران ایک میز پر بیٹھے، تو دنیا نے دیکھا کہ نظریاتی اختلاف کو وقتی طور پر سرد خانے میں رکھ کر معاشی اور علاقائی توازن کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ چین نے اِس مصالحت میں مرکزی کردار ادا کر کے ثابت کیا کہ عالمی طاقت کا مرکز آہستہ آہستہ مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہ منظرنامہ صرف ایک سیاسی نقشہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی سوال بھی ہے۔‘‘

کیا طاقت ہی انصاف ہے؟ کیا امن صرف اُن کے لیے ہے، جو دولت اور دفاعی قوّت رکھتے ہیں؟‘‘ پاکستان کے لیے یہ وقت ایک نیا امتحان ہے۔ ایک طرف عالمی دباؤ، دوسری طرف اندرونی چیلنجز، مگر قوموں کی پختگی بحرانوں ہی سے جانچی جاتی ہے۔ پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ مسلم دنیا میں ایک متوازن، باوقار اور انسانی اقدار پر مبنی مؤقف اختیار کرے۔ 

اگر ہم نے اپنے نظریاتی وَرثے یعنی امن، انصاف اور رواداری کو بنیاد بنایا، تو دنیا میں پاکستان کی بات سُنی جائے گی۔ یہی وہ راستہ ہے، جسے آج کی نوجوان قیادت، خصوصاً بلاول بھٹو زرداری آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

ان کا بین‌ الاقوامی وژن، جو جنگ کی بجائے مکالمے، تناؤ کی بجائے تعاون اور تنقید کی بجائے پالیسی کی بات کرتا ہے، پاکستان کو ایک نرم قوّت (Soft Power) کے طور پر عالمی سطح پر نمایاں کر سکتا ہے۔ سفارت کاری میں ان کا زور ’’عزت دارانہ امن‘‘ پر ہے، جو نہ جُھکنے کا نام ہے اور نہ لڑنے بھڑنے کا، بلکہ سمجھوتے کے ساتھ وقار کا امتزاج ہے۔ جو قومیں اپنی بات دلیل سے منواتی ہیں، وہی تاریخ میں باقی رہتی ہیں اور یہی پاکستان کے لیے اصل پیغام ہے۔’’امن کی آواز بننا، مگر کم زوری کے ساتھ نہیں، وقار اور تدبّر کے ساتھ۔‘‘

دنیا کے نقشے پر اب جو خاموش تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، وہ صرف جنگ و امن کی بحث تک محدود نہیں رہیں بلکہ اقتصادی مفادات، توانائی کے ذخائر اور ٹیکنالوجیکل خودمختاری کی جنگ میں ڈھل چُکی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے صحرا ہوں یا یورپ کے ایوانِ اقتدار، ہر سمت ایک نئی صف بندی دِکھائی دیتی ہے۔ امریکا، جو دہائیوں تک دنیا کے فیصلوں کا واحد مرکز تھا، اب اپنے ہی اتحادیوں کے درمیان عدم اعتماد کا شکار نظر آتا ہے۔ 

برطانیہ بریگزٹ کے بعد اپنی کھوئی شناخت کی تلاش میں ہے، یورپی یونین توانائی کے بحران میں اُلجھی ہوئی اور روس، جو کبھی سرد جنگ کے بعد کم زور دِکھائی دیتا تھا، اب یوکرین جنگ کے تناظر میں مغربی طاقتوں کو چیلنج دینے کا نیا حوصلہ پا چُکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ تہران اور ریاض کی پالیسیز کے درمیان گہری خلیج موجود تھی۔ 

شام، یمن، لبنان اور بحرین میں دونوں طاقتوں کا غیر علانیہ تصادم جاری تھا، لیکن اب، جب عالمی سیاست کا مرکز مشرقِ وسطیٰ سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے، دونوں ممالک نے سمجھ لیا کہ مستقبل کے خطرات کم کرنے کے لیے مفاہمت ناگزیر ہے۔ 

چین کی ثالثی سے طے پانے والا معاہدہ دراصل بیجنگ کی بڑھتی عالمی حیثیت کا اشارہ تھا اور مغرب کے لیے ایک غیر متوقّع چیلنج بھی۔ سعودی عرب کے’’وژن 2030 ء‘‘ کے تحت، معیشت کو تیل سے ہٹ کر متنوّع بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

ایران، برسوں کی پابندیوں کے باوجود اپنی سائنسی اور عسکری خودمختاری پر اصرار کر رہا ہے۔ ان دونوں کے درمیان قربت کا مطلب صرف علاقائی امن نہیں، بلکہ ایک ایسے بلاک کی تشکیل بھی ہے، جو توانائی، تجارت اور سیکیوریٹی کے حوالے سے مغرب کے لیے نئی حقیقت بن سکتا ہے۔

دوسری طرف، اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر بڑھتے مظالم نے نہ صرف عرب دنیا، بلکہ عالمی رائے عامّہ کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اِس بار فرق یہ ہے کہ دنیا خاموش نہیں رہی۔ یورپ کے کئی شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، واشنگٹن اور لندن کے ایوانوں میں بحث ہوئی اور اقوامِ متحدہ میں پہلی بار اسرائیلی جارحیت کو کُھلے الفاظ میں زیرِ بحث لایا گیا۔ اگرچہ طاقت کا توازن ابھی بھی اسرائیل کے حق میں جُھکا ہوا ہے، لیکن عالمی سطح پر اُس کے بیانیے کی کم زوری واضح ہو چُکی ہے۔ 

سوشل میڈیا نے اُس جھوٹے تاثر کو ختم کر دیا، جو برسوں سے اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر پھیلاتا رہا۔ پاکستان کے لیے یہ وقت انتہائی نازک، مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ ایک طرف بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیاں، لائن آف کنٹرول پر جارحیت اور کشمیر میں مظالم، دوسری طرف عالمی سیاست میں نئی صف بندی، پاکستان کو ایک متوازن اور فعال خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ایک طرف وہ قوّتیں ہیں، جو کم زور اقوام کے وسائل پر قبضہ چاہتی ہیں، دوسری طرف وہ مُلک ہیں، جو اپنے لوگوں کے حقِ خود ارادیت، مساوات اور امن کے لیے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ دوسری صف میں رہا ہے، اس کے عوام نے قربانیاں دی ہیں، جب کہ اس کے رہنماؤں نے آمریتوں اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کیا۔

آج جب عالمی حالات ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں، تو پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی سفارت کاری، معاشی خود انحصاری اور ماحولیاتی پائے داری کے اصولوں پر استوار کرے۔ سندھ حکومت کی پالیسیز میں جس طرح عوامی فلاح، توانائی کے ضمن میں خود کفالت اور موسمیاتی چیلنجز کا ادراک جَھلکتا ہے، وہ اسی قومی وژن کا تسلسل ہے۔

دنیا کے سیاسی نقشے پر اب جو تغیّرات اُبھر رہے ہیں، وہ کسی ایک واقعے یا کسی ایک خطّے کا ردّ ِعمل نہیں، بلکہ ایک عالمی شعور کی تبدیلی کا عکس ہیں۔ سرد جنگ کے بعد جو نظام امریکا اور اس کے اتحادیوں کے گرد گھومتا تھا، وہ اب اپنی گرفت کھو رہا ہے۔ اب طاقت کے مراکز تقسیم ہو چُکے ہیں۔ 

واشنگٹن واحد فیصلہ ساز نہیں رہا۔ بیجنگ، ماسکو، تہران، انقرہ اور ریاض بھی عالمی فیصلوں میں وزن رکھتے ہیں۔ اور اس نئے دور میں پاکستان وہ مُلک بن کر اُبھر رہا ہے، جو توازن، حکمتِ عملی اور اصولی خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی جگہ مستحکم کر رہا ہے۔

یہ دَور وہ ہے، جب دنیا تیزی سے’’بلاک پالیٹکس‘‘ سے نکل کر’’مفاداتی صف بندی‘‘ کی طرف جا رہی ہے۔ چین اور روس کی قربت اب محض نظریاتی نہیں، بلکہ اقتصادی و دفاعی شراکت کی بنیاد پر استوار ہو چُکی ہے۔ بیجنگ کی قیادت میں’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ نے عالمی تجارت کا رُخ بدل دیا ہے اور پاکستان اس منصوبے کے مرکزی دروازے، سی پیک کے ذریعے عالمی معیشت کے نئے راستوں میں داخل ہو چُکا ہے۔ 

روس، جسے مغرب نے یوکرین جنگ کے بعد تنہا کرنے کی کوشش کی، اب ایشیائی اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں نئے اتحادوں کے ذریعے دوبارہ متحرّک ہو رہا ہے۔ تُرکیہ، جو کبھی نیٹو کے تابع دِکھائی دیتا تھا، اب روس اور چین کے ساتھ بھی کُھلے تعلقات رکھتا ہے۔ ایسے میں پاکستان ایک ایسی پوزیشن میں ہے، جو تاریخی طور پر اس کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے، یعنی توازن، احتیاط اور خود داری۔ 

پاکستان نہ کسی بلاک کا تابع ہے، نہ کسی اتحاد کا اندھا مقلّد۔ یہ وہ مُلک ہے، جو اپنی جغرافیائی اہمیت، دفاعی استعداد اور عوامی طاقت کے بَل بوتے پر عالمی سیاست میں توازن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج روس کے ساتھ توانائی تعاون پر بات کر رہا ہے، چین کے ساتھ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، ایران کے ساتھ سرحدی امن اور توانائی شراکت پر اتفاق کر رہا ہے اور تُرکیہ کے ساتھ عسکری و دفاعی تعاون کو وسعت دے رہا ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اب’’ضرورت‘‘ سے بڑھ کر’’ادراک‘‘ کی سطح پر آ رہی ہے۔ 

واشنگٹن کو اندازہ ہے کہ پاکستان خطّے کی سلامتی، افغانستان کے امن اور عالمی ماحولیاتی ایجنڈے کے لیے ناگزیر پارٹنر ہے۔ دوسری طرف، بیجنگ کے ساتھ پاکستان کا تعلق محض دو ممالک کا نہیں، بلکہ مستقبل کی معاشی شراکت داری کا ہے۔ ایک ایسا تعلق، جو خطّے کی ترقّی اور امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پاکستان کسی ایک بلاک میں بندھنے کی بجائے خود اپنا عالمی کردار وضع کر رہا ہے۔ 

یہی’’ملٹی الائنس ڈپلومیسی‘‘ ہے۔ پاکستان کی افواج نے خطّے میں استحکام قائم رکھنے میں جو کردار ادا کیا، وہ نہ صرف دفاعی کام یابی ہے، بلکہ ایک سفارتی پیغام بھی کہ پاکستان امن چاہتا ہے، مگر یہ اس کی کم زوری نہیں۔ طاقت کا مظاہرہ اور طاقت کا استعمال کرنا، دو مختلف باتیں ہیں، جب کہ پاکستان نے ہمیشہ پہلا راستہ چُنا، جو دانش مندی کی علامت ہے۔ بلاشبہ، پاکستان کی سفارتی پالیسی اب اس مرحلے میں ہے، جہاں ماضی کی غلطیاں دُہرانے کی بجائے سیکھنے کا عمل جاری ہے۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں۔)

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید