 
                
                 
تاریخ کے افق پر کچھ رشتے ایسے ابھرتے ہیں جو وقت کے نہیں، احساس کے نوشتے ہوتے ہیں۔ وہ رشتے جو زمین پر نہیں، دل کی مٹی پر اُگتے ہیں اور پھر ایک دن سرد ہو کر بھی سلگتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا تعلق بھی ایسا ہی ہے ۔ دو مسلمان سرزمینیں، ایک ایمان، ایک زبانِ دعا، مگر دو الگ خواب، دو الگ زخم۔ ان کے درمیان ایک لکیر ہے۔ڈیورنڈ لائن۔ جو صرف زمین کو نہیں، بلکہ یادوں کو تقسیم کرتی ہے۔
درۂ خیبر ۔ وہ دروازہ جس سے تاریخ برصغیر میں داخل ہوتی تھی ۔ اب وہی دروازہ ہے جس پر صدیوں کا قفل لگا ہوا ہے۔ یہاں کبھی قافلے اُترتے تھے، اب مورچے بنتے ہیں۔ یہی درہ جہاں سے صوفیا کے قدموں نے روشنی پھیلائی تھی، آج بارود کی مہک سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وہی درہ ہے جسکے پار پنجاب کی وہ زمین ہے جہاں پشتو بولنے والے لوگ بستے تھے، جہاں رنجیت سنگھ کا جھنڈا لہراتا تھا، جہاں پہاڑوں نے پنجابی اور پٹھان کے لہجے کو ایک نغمہ بنا دیا تھا۔ جب وہ سلطنت مِٹی تو انگریزوں نے اُسے ’’صوبہ سرحد‘‘کا نام دیا ۔ نظم کے نام پر جدائی کی لکیر۔ افغانستان نے اُس دن محسوس کیا جیسے تاریخ نے اس کا سایہ چرا لیا ہو۔
اور پھر 1947ءآیا ۔ وہ دن جب برصغیر نے ایک نئی سانس لی۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو دنیا کے سب ممالک نے اُس کے جنم پر مبارکباد دی ۔ سوائے افغانستان کے۔ کابل نے خاموشی اختیار کی۔ یہ خاموشی ایک سیاسی بیان نہ تھی، یہ ایک زخمی صدی کا ماتم تھی۔ افغانستان نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کیا، گویا اس نے وقت کے چہرے سے مسکراہٹ چُرا لی۔ یہ انکار دراصل اس اعتراف کا دوسرا نام تھا کہ وہ نئی لکیر جسے برطانوی ہاتھوں نے کھینچا، اب اسلام آباد کی شہ رگ بن چکی تھی۔
ڈیورنڈ لائن ۔ وہ تاریکی جو 1893 میں دستخط ہوئی تھی ۔ صرف زمین نہیں بانٹی، خواب بھی بانٹ دیے۔ ایک طرف طاقت کا قلم، دوسری طرف تاریخ کا دل۔ افغان حکمرانوں نے اُسے کبھی قبول نہ کیا، کیونکہ ہر لکیر انہیں اپنے ماضی کے ٹوٹنے کی یاد دلاتی تھی۔ پاکستان نے اُسے اپنی سلامتی کی لکیر سمجھا، افغانستان نے اُسے اپنی شناخت کا زخم۔ یوں ایک ہی معاہدہ دو الگ معنوں میں زندہ رہا ۔ ایک کے لیے سرحد، دوسرے کے لیے سینہ۔وقت گزرتا گیا۔ بادشاہ ظاہر شاہ کے تاج سے لے کر طالبان کے عمامے تک، سب نے اُس لکیر کو مٹانے کے خواب دیکھے۔
مگر خواب لکیر نہیں مٹاتے، وہ صرف نیند گہری کر دیتے ہیں۔ پاکستان نے جب اپنی حفاظت کے لیے اس لکیر پر باڑ لگانی شروع کی، تو افغانستان نے اُسے دشمنی کی دیوار سمجھ لیا۔ لوہے کی تاروں کے بیچ بدگمانی کے سانپ رینگنے لگے، اور گولیوں کی آواز میں امتِ مسلمہ کا نعرہ دب گیا۔
یہ دو ملک نہیں، دو آئینے ہیں ۔ ایک میں شکوہ، دوسرے میں سایہ۔ ایک طرف دعا کے الفاظ ہیں، دوسری طرف شک کی سانس۔ افغانستان کے ایوان اسلام آباد سے مسکراتے ہیں، مگر دل کے اندر پرانی سردی اترتی ہے۔ پاکستان ہاتھ بڑھاتا ہے، کابل انگلیاں سکیڑ لیتا ہے۔ یہ وہ محبت ہے جس کے ماتھے پر نفرت کا بوسہ ثبت ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ روس کے جہاز جب کابل پر بم برسا رہے تھے، تو پناہ صرف پاکستان نے دی۔ لاکھوں افغان بچے پاکستان کی مٹی پر بڑے ہوئے، انہی اسکولوں میں پڑھے، انہی بازاروں میںکاروبار کیے۔ مگر شک کی دیواروں نے شکرگزاری کے دروازے بند رکھے۔ پناہ گزینوں کی نسلیں اب بھی یہاں سانس لیتی ہیں، مگر ان کے خواب اب بھی کابل کی طرف جاگتے ہیں۔
افغانستان آج بھی پختونستان کے سائے میں سوچتا ہے ۔ وہ خواب جو ماضی کے ملبے میں دب چکا ہے۔ وہ یہ ماننے سے گریزاں ہے کہ اب یہ لکیر محض جغرافیہ نہیں، بلکہ خودمختاری کی مہر ہے۔ اسے مٹانا دراصل اپنے وجود سے انکار ہے۔ کابل کے دل میں اب بھی ایک پرانی کسک ہے کہ برصغیر میں ایک نئی اسلامی ریاست بنی، اور وہ اُس کے صفحے پر صرف تماشائی رہا۔
شاید یہی احساسِ محرومی اُس کے فیصلوں کا خاموش سبب ہے۔ پاکستان نے دوستی کی ہر راہ آزمائی، مگر ہر کوشش کے بعد سرحد پر دھوئیں کا بادل اٹھا۔ کبھی فائرنگ، کبھی الزام، کبھی خاموشی ۔ اور ہر بار وہی فاصلہ جو بڑھتا تو زمین پر نہیں، بلکہ دل میں بڑھتا تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ اس کہانی میں بھارت کا سایہ ہے ۔ وہ سایہ جو کبھی دھوپ میں بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ وہ کابل کی گلیوں میں نرمی کے ساتھ داخل ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے سیاست کی سختی چھپی ہوتی ہے۔ افغان حکومت کے کچھ حلقے اب بھی اسی خاموش ہاتھ کی گرمی محسوس کرتے ہیں جو انکے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں پاکستان کے شمال مغرب میں عدمِ استحکام کی لکیر مسلسل کھینچی جا رہی ہے، تاکہ اسلام آباد کی توانائی ہمیشہ دفاع میں برباد ہو۔
مگر وقت کے صحن میں سوال اب بھی گونجتا ہے ۔ کیا افغانستان کبھی اپنے ہمسائے کو قبول کرے گا؟ کیا وہ سمجھ پائے گا کہ بھائی کو دشمن کہنا خود کو تنہا کرنے کے مترادف ہے؟ شاید وہ دن تب آئے گا جب وہ اپنی تاریخ کو سیاست سے جدا کر دے گا۔ جب وہ ماضی کے دھندلے آئینے میں اپنے زخموں کو پہچاننے کے بجائے ان پر مرہم رکھے گا۔
کیونکہ اب درۂ خیبر کے دونوں طرف زمین نہیں بولتی ۔ دل بولتے ہیں۔ اور دل کہتا ہے کہ باڑ لوہے سے نہیں بنتی، بدگمانی سے بنتی ہے۔ اسے کاٹنے کے لیے ہتھیار نہیں، مکالمہ چاہیے۔ تلوار نہیں، اعتماد چاہیے۔اگر ایک دن کابل اپنے خوف سے آزاد ہو کر اسلام آباد کو دل سے تسلیم کر لے، تو اس خطے میں امن کی وہ صبح طلوع ہو سکتی ہے جسکی پہلی کرن درۂ خیبر پر پڑے اور پہاڑوں کے بیچ صدیوں کی برف پگھلا دے۔