• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎ہمارے جیسے ہائبرڈ سسٹم والے ممالک میں خالصتاً مفاداتی ایجنڈے پرچلاجاتاہے۔ اس لیے اس میں یہ گنجائش موجود رہتی ہے کہ کب نائنٹی کے زاویے پر پینترا بدلنا ہے یوں ریاست کوئی شرمندگی محسوس کیے بغیر اس نوع کے پینترے بدلنے کے لیے آمادہ و تیار ہوجاتی ہے۔‎اب مسئلہ عوامی سطح پر مسلط کی گئی رائے عامہ کا بنتا ہے مثال کے طورپر رائے عامہ کلی طور پر امریکا انڈیا یا اسرائیل سے شدید منافرت کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے لیکن آپ اپنا مفاد بدلے ہوئے حالات میں انہی کی یا ان میں سے کسی کی اپنائیت و حمایت میں جاتا دیکھتے ہیں اور آپ فوری طور پر سابقہ پینترا بدلنے جارہے ہیں تو عوامی سطح پر اس کی مزاحمت شروع ہوجاتی ہےلہٰذا درویش کا مشورہ ہے کہ کسی بھی انتہاپسندانہ اپروچ کو اختیار کرتے وقت اس میں کچھ نہ کچھ لچک رہنے دیا کریں۔‎

‎اس وقت درویش کو جس ایشو پر بحث مطلوب ہے وہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ہے جسے آپ لوگوں نے ہمیشہ کفر و اسلام یا موت و حیات کی جنگ بناکر اپنی رائے عامہ اس قدر متشدد تشکیل دے رکھی ہے کہ درویش نے آج سے تین دہائیاں قبل جب اس نام نہاد ٹیبو کو توڑنے کی کوشش کی تو منہ کی کھانی پڑی۔ اتنے طویل دورانیے میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا اور آج بھی جب آپ اپنے پاسپورٹ کا نیا اجراکرنے جارہے ہیں ناچیز نے جب یہ کہنا چاہا کہ خدارا اس پر لکھی گئی تحریر کہ ’’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے تمام دنیا کے لیے کارآمدہے۔ ‘‘کو پاسپورٹ سے ہٹا دیں آپ نے اگر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا یا نہیں کرنا چاہتے تو پھر اس کا نام بھی اپنے پاسپورٹ کی پیشانی پر کیوں لکھ رکھا ہے؟ جس پنڈ نہیں جانا اس کا ذکر کیا، انڈیا سے آنے والوں کے لیے تو ویزے واہگہ بارڈر پر بھی مل جاتےہیں جبکہ اسرائیل جس سے براہِ راست کسی نوع کا کوئی ایک تنازع بھی نہیں اس سے اتنی مغائرت کیوں؟ کیا سرکاری کیا غیر سرکاری ہمارا میڈیا جن کے خلاف چار حروف لکھنے بولنے کی اجازت نہیں دیتا مگر ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ کا قومی مفاد شاہ حسین ابن طلال کے حق میں اس قدر گرمجوش ہوا کہ آپ نے جارڈن میں موجود ان باغی فلسطینیوں یا فلسطینی فدائین کا تورا بورا بنادیا یوں کہ اسرائیلی ہی نہیں آپ کے شاعر مشرق کے الفاظ میں دنیا بھر کے ”شرمائیں یہود“ان ہلاک شدگان فلسطینیوں کی تعداد پانچ سے پچیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔

‎درویش آج بھی آپ کے اس جراتمندانہ اقدام کی پوری تحسین کرتے ہوئے اسے جسٹی فائی کرتا ہے کہ آپ نے اس نازک موقع پر جو جاندار آپریشن کیا وہ ہر حوالے سے درست اور بروقت تھا کیونکہ آپ نے فلسطینیوں میں موجود شدت پسندوں کا قلع قمع کیا تھا بصورتِ دیگر وہ ہاشمی مملکت جارڈن میں شاہ حسین کا تختہ الٹتے تواس سے بھی زیادہ خون خرابہ ہوتا اور یہ وہی تھے جنہوں نے پوری پلاننگ کرتے ہوئے ماقبل 1951ء میں موسس جارڈن یعنی شاہ حسین کے دادا حضوراور شریف مکہ کے فرزند شاہ عبداللہ اول کو عین بیت المقدس میں بے دردی سے قتل کرڈالا تھا۔ اگر جنرل ضیاء الحق نے ستر میں جارڈن اور کنگ آف جارڈن کا دفاع نہ کیا ہوتا تو نہ صرف پہلے والی شرانگیزی کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جاتی بلکہ عمان میں بیروت جیسی خانہ جنگی ہوتی اور وہ کھنڈر بن جاتا۔

‎پھروقت کیساتھ،حالات نے پلٹا کھایا عربوں نے اس قدر جنگیں لڑنے اور خون بہانے کے بعدعظیم مصری صدر انورالسادات کی قیادت میں یہ تسلیم کرلیا کہ محض اسرائیل نہیں خود عربوں کی بقا بھی جنگ نہیں امن میں ہےاس معصوم صدر کو اس کی بھاری قیمت اگرچہ اپنی جان قربان کرکے دینی پڑی مگر اپنی قوم پر یہ نیکی کرگیا کہ اس کے بعد آج تک نہ صرف مصر اور اسرائیل میں کوئی خونی جنگ نہیں ہوئی بلکہ جارڈن اور مابعد خود فلسطینی گوریلا لیڈر یاسرعرفات نے بھی سادات کی راہ چنتے ہوئے اپنے عوامی عرب مفادات کا تحفظ کیا، البتہ یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ جنونیت و خونخواری کا روگ اگر کسی قوم،گروہ یا فرد کو لگ جائے تو اس کا کیڑا دماغوں سے جلد نہیں نکل پاتا کیونکہ وہ جنونی طبقات کی سرشت کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔ عرفات نے سو دھکے یا پیاز کھانے کے بعد جب سادات کی امن پسندی کو اپنایا تو فوری طور پر فلسطینی شدت پسند اذہان کا لاوا حماس کی صورت پھوٹ پڑا وہ دن اور آج کا دن حماس والوں نے سوائے عام غریب فلسطینیوں کو مروانے کے کیا کوئی ایک چپہ زمین حاصل کی یا کسی نوع کا کوئی ایک مفاد عام فسلطینیوں کو دلوایا؟ البتہ بربادی اتنی کروادی جیسے کہ اب اگر انہیں غیر مسلح نہ کیاجاسکا تو عین ممکن ہے کہ غزہ کی اس پٹی سے فلسطینی عوام ہمیشہ کے لیے محروم کردیے جائیں۔

‎یہ ہیں وہ حالات جن میں ٹرمپ کا بیس نکاتی غزہ پیس پلان آیا ہے جسے بشمول سعودی عرب اور ترکیے مسلم ورلڈ کی قریباً تمام قیادتوں نے سوائے ایران کے قبول کیا ہے ایرانیوں کی مخالفت میں بھی اب کوئی دم خم نہیں رہا ہے۔

‎شرم الشیخ کے جس معاہدے پر امریکا کے ساتھ ترکیہ، مصر اور قطر نے دستخط کیے ہیں اور پاکستانی قیادت نے بھی اس موقع پر ٹرمپ کی امن پسندی اور انسان نوازی کا قصیدہ پڑھتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے بجا طور پر ملادیے ہیں ایسے میں اخلاقی، اصولی، سیاسی مذہبی اور عالمی ہر حوالےسے حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی امن کے لیے حماس کی اس شدت پسندی کا قلع قمع کرنے کے لیے، جو ہزاروں فلسطینیوں کو اپنی خونخواری کی بھینٹ چڑھا چکی ہے، آگے بڑھے اپنی فورسز کے ذریعے ارضِ مقدس میں امن و سلامتی کے قیام میں اپنا حصہ ڈالے بالکل اسی طرح جیسے مسلم ورلڈ کی تمام قیادتیں چاہتی ہیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت انڈونیشیا کی قیادت اپنی بیس ہزار فورسز بھیجنے کا وعدہ یو این میں کھڑے ہوکر اقوام عالم کے سامنے کرچکی ہے ہمارے برادر اسلامی ملک آذربائیجان کے پاکستان اور اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات پوری دنیا کے سامنے ہیں، ہم بھی اپنے ان مسلم بھائیوں کے دوش بدوش غزہ میں قیام امن کے لیے آگے بڑھیں۔

حکومت پاکستان اور اپنے طاقتوران سے استدعا ہے کہ وہ پاکستانی رائے عامہ کی بہتر تشکیل کے لیے، اسے جنونیت سے نکال کر عالمی امن و سلامتی کی طرف لانے کے لیے، اپنے ذرائع ابلاغ کی مثبت رہنمائی کے اقدامات اٹھائیں۔ یہاں فکری تطہیر کے لیے حریت فکر اور آزادئ اظہار کی راہیں کشادہ فرمائیں تاکہ آپ شرم الشیخ میں اٹھائی گئی اپنی عالمی ذمہ داریاں بطریقِ احسن ادا کرسکیں۔

تازہ ترین