گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک پیچیدہ اور مشکل تعلق چلا آرہا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب عدم استحکام، بے اعتمادی، اور بدامنی نے بارہا امن کی امید کو دھندلا دیا۔ حالیہ مہینوں میں یہ کشیدگی ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ افغان سرزمین سے ہونیوالے سرحد پار حملوں میں پاکستانی فوجی اور شہری شہید ہوئے ہیں۔ چترال اور شمالی وزیرستان کے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ جب تک دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں کیے جاتے، حقیقی امن ممکن نہیں۔
پاکستان نے کئی بار ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ انکے تربیتی مراکز، قیادت اور سپلائی نیٹ ورک وہاں کھلے عام کام کر رہے ہیں، جن سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ انہی واقعات کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ دوحہ میں ہونیوالے ابتدائی مذاکرات کے بعد ترکی اور قطر کی میزبانی میں گزشتہ ہفتے استنبول میں ایک نیا دور منعقد ہوا۔ پاکستان نے ٹھوس شواہد اور تحریری ضمانتوں کے مطالبات کیساتھ شرکت کی، لیکن افغان وفدنے کوئی مثبت جواب نہ دیا۔
یہ ناکامی محض سفارتی نہیں بلکہ ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ افغان قیادت کے اندر یہ تذبذب موجود ہے کہ وہ انتہا پسندی سے نظریاتی فاصلہ اختیار کرے یا اسے سیاسی ضرورت کے طور پر قبول کرے۔ جب تک تحریکِ طالبان پاکستان کو ایک نظریاتی بھائی سمجھا جاتا رہے گا، امن محض خواب رہے گا۔
دوحہ معاہدہ 2020ء میں امید کی ایک کرن بنکر آیا تھا۔ طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان نے اس وعدے کو خوش آمدید کہا، یہ سوچ کر کہ ایک ذمہ دار افغانستان خطے میں استحکام لائے گا۔ لیکن 2021ء میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد حالات بدل گئے۔ مسلح گروہوں نے دوبارہ سر اٹھایا، اور دوحہ کے وعدے زمینی حقیقتوں کے نیچے دب گئے۔
پاکستان کا مؤقف آج بھی واضح ہے’ ہم امن چاہتے ہیں مگر اپنی سلامتی کی قیمت پر نہیں‘۔ ہماری افواج نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن صبر کو کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ہر خودمختار ملک کو اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے، اور پاکستان اس حق کا بھرپور استعمال کرے گا۔
جنیوا میں انٹر پارلیمنٹری یونین کے 151ویں اجلاس میں افغان مندوب نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ میں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی فورم پر یہ واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوّے ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے اور اب بھی چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ ہمارا مسئلہ افغان عوام سے نہیں بلکہ ان عناصر سے ہے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ گفت و شنید کو حقیقی اقدامات میں بدلا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے شواہد اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سامنے رکھے تاکہ مسئلے کو بین الاقوامی حمایت ملے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی سرحدوں پر جدید نگرانی کے نظام، بائیومیٹرک کنٹرول اور شفاف تجارتی گزرگاہوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ محفوظ سرحد ہی پائیدار دوستی کی بنیاد بن سکتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ انسانیت اور ہمدردی کو مقدم رکھا ہے۔ لاکھوں افغان شہری پاکستان میں رہتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں اور روزگار کماتے ہیں۔ یہی انسانی رشتہ دونوں ممالک کے درمیان امن کی سب سے مضبوط بنیاد ہے۔ مگر یہ تعلقات صرف اسی وقت مستحکم رہ سکتے ہیں جب دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کیے جائیں۔
استنبول مذاکرات نے ایک بات صاف کر دی ہے کہ مکالمہ اُس وقت بامعنی ہو گا جب اس کے ساتھ جواب دہی بھی شامل ہو۔ پاکستان کا صبر لامحدود نہیں۔ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو پاکستان اپنی سرحدوں اور اپنے عوام کا دفاع کرے گا، جیسا کہ ہر خودمختار ملک کا حق ہے۔ افغان قیادت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امن وعدوں سے نہیں بلکہ اقدامات سے آتا ہے۔
پاکستان نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ قربانی بھی دی، گفت و شنید بھی کی، اور تحمل بھی دکھایا۔ اب باری افغانستان کی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ امن کا خواہاں ہے، یا پھر وہ ایک بار پھر ماضی کی غلطیوں کو دہرانا چاہتا ہے۔