• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ: امریکہ کو ہم نے عظیم بناکر چھوڑنا ہے 75سالہ پالیسیوں نے اسے معاشی اور سیاسی سطح پر کمزور کردیا ہے بائیڈن اور تمہاری پالیسیوں نے امریکہ کو بہت نقصان پہنچایا۔

صدر اوباما:امریکہ کی پالیسیاں بہت سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہیں۔ صدر وڈروولسن(امریکی صدر1913تا1921) کی لبرل بین الاقوامیت نے گزشتہ سو برسوں میں دنیا کو چلایا ہے، پہلے لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیاں بھی اسی سوچ کا تحفہ ہیں۔

صدر ٹرمپ: یہ سب اب زائد المیعاد پالیسیاں ہیں ہم نے دنیا کی لڑائیوں اور مسائل کا بوجھ اپنی معیشت پر نہیں ڈالنا۔ ہمیں دوسرے ملکوں میں جمہوریت سے کیا لینا دینا ،وہ جانیں اور انکے ممالک۔ انسانی حقوق اور آزادیاں بھی ان کا اندرونی مسئلہ ہے ہم کیوں دنیا بھر کے’’ مامے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔

صدر اوباما: جو ملک جتنا بڑا اور طاقتور ہوتا ہے اتنی ہی اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وڈروولسن کا ورلڈ آرڈر انسانی شعور کے آگے بڑھنے کی نشانی تھی۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کے بغیر معاشرہ دوبارہDark Ages تاریک ادوار جیسا ہوجائے گا جہاں انتہا پسندآمر آکر ایک دوسرے سے جنگ کریں گے اور دنیا کو پھر سے خونخوار کردیں گے۔

صدر ٹرمپ: اب آج کے مالیاتی ورلڈ آرڈر بنانے والے الیگزنڈر ہیملٹن (1753تا1804ء ) کا دور نہیں رہا، اب روتھ شیلڈ کی فلاسفی اور بینکنگ سے صرف یہودیوں کو فائدہ پہنچانے کا وقت گزر چکا، اب نیٹو کے ممالک خود اپنے دفاعی اخراجات اٹھائیں جس ملک نے امریکہ کے ساتھ تجارت کرنا ہے اسکو ہمارے مفادات کو مدنظررکھنا ہوگا۔

صدر اوباما: ماضی میں ملکوں اور لیڈروں کے مفادات کے ٹکراؤ سے جنگیں ہوئیں، پہلی اور دوسری جنگ عظیم جو تباہی لائی تھی ولسن کی لبرل عالمی پالیسیوں کے نفاد کے بعد تیسری جنگ عظیم نہ ہوئی نہ اس آرڈر کی موجودگی میں اسکا امکان تھا آپکی خود غرضانہ پالیسیوں سے پھر سے حریفانہ مفادات کا ٹکراؤ شروع ہوجائے گا دنیا کا آرڈر تہس نہس ہوجائے گا آپ اگلے زمانے کے ولن ہونگے۔

صدر ٹرمپ: میں رہوں یا نہ رہوں میں سو سالہ بے وقوفانہ نظام بدل کر جاؤں گا امریکہ کوعظیم تر بنانا میرا خواب ہے لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ڈیموکرٹیس زمانے کی تبدیلیوں کو سمجھ نہیں رہے اس لئے میرے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، اب اگلا زمانہ ولسن آرڈر کا نہیں ٹرمپ آرڈر کا ہے اور وہی آگے چلے گا۔

صدر اوباما:آپکی بے وقوفانہ پالیسیوں کے دنیا بھر میں امن، جمہوریت اور رواداری پر بہت ہی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، دنیا میں جمہوری رہنماؤں کی بجائے پھر سے طاقتور اور زور آور حکمرانوں کا دور شروع ہوگیا ہے، اب اصولوں پر حکومت کرنے کی بجائے شخصیت اور طاقت کے زور پر حکومتیں عروج پارہی ہیں۔ السلواڈور میں نایاب بوکیلے، تیونس میں قیس سعید اور ہنگری میں وکٹر اور بان بالکل چینی اور روسی نظام کی طرح اپنی حکومتیں چلارہے ہیں نیدرلینڈ اور یورپ میں ہر جگہ انتہا پسند دایاں بازو جیت رہا ہے۔

صدر ٹرمپ: ہمیں آمر حکومتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، ہم دنیا بھر میں امن چاہتے ہیں، ہر جنگ کو روک رہے ہیں، ہمیں کسی ملک کے اندرونی معاملات سے کیا لینا دینا۔یہ نئی دنیا اقتصادیات اور مفادات کی دنیا ہے ہمارا اسی سے تعلق ہے ہر ملک کے اپنے اصول ہیں ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کے قائل ہی نہیں۔

صدر اوباما: بھارت دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت ہے آپ سر عام وزیر اعظم مودی کا مذاق اڑاتے ہیں پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ کلنٹن نے وہاں کے غیرجمہوری صدر جنرل مشرف سے ہاتھ تک نہ ملایا تھا، میں نے بھارت کا دورہ کیا لیکن پاکستان نہ گیا۔

صدر ٹرمپ:آپکی انہی غلط پالیسیوں نے امریکہ کی عظمت کو گہنا دیا ہے پاکستان نے اپنے آپ کو بھارت سے برتر ثابت کیا ہے اس نے سات خوبصورت اور جدید طیارے مارگرائے ہیں وہ ایران اور افغانستان جیسے امریکہ کیلئے خطرناک ممالک کا ہمسایہ ہے چین اور امریکہ کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے، اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے اور ہمارا سب سے بااعتماد حلیف ہے۔ امریکہ نے اسکے ساتھ مل کر کئی جنگیں لڑی ہیں ہم کیوں اسکے اندرونی معاملات میں پڑیں وہ جو چاہے کرے اسے فری ہینڈ حاصل ہے۔

صدر اوباما: آپ کی انہی عجیب وغریب پالیسیوں نے یورپ کو ہم سے برگشتہ کردیا ہے، ہمارا اتحادی اسرائیل دبائو میں ہے، ایشیا میں عدم توازن کی فضا سے آپ بغیر کسی منصوبہ بندی کے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں سوسال سے ہملٹن اور تھامس جیفرسن نے جو اصول طے کیے تھےآپ ان سے بھی انحراف کررہے ہیںاور تو اور آپ نیا بال روم بنا کروائٹ ہاؤس کی تاریخی خوبصورتی کو بھی مسخ کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ: اور تم جو شکاگو میں ایک فضول لائبریری بنارہے ہو۔ تم کلنٹن اوربائیڈن سب ناکام صدر تھے، تم میں سے کوئی چار جنگیں رکواسکا۔ تم تو اسرائیل اور حماس کی جنگ پر کبھی قابو نہیں پا سکے۔ ایران کے ساتھ تمہارے دور میں کیا گیا معاہدہ فضول تھا۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات سے تم ذرہ برابر فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ میں وہاں سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا ہوں، تمہارے اصول کاغذوں کی حد تک ہیں تم عملی بزنس مین نہیں جو کچھ کرکے دکھاسکے۔ میں ڈیلیور کررہا ہوں تم لوگ صرف باتیں کرتے تھے میں اس صدی کا سب سے عظیم امریکی صدر ہوں جو دنیا اور امریکہ دونوں کو بدل کر دکھائے گا۔

صدر اوباما: مجھے تو ڈر ہے کہ تمہاے جیسا غیرمستقل مزاج اور بے اصول کاروباری کہیں دنیا کو تباہی کے دہانے پر نہ پہنچا دے ۔سیاست دانش، برداشت اور ٹھنڈے مزاج کاکام ہے تم بزنس کے آدمی ہو سیاست کے نہیں۔تم عقل کے نہیںجذبات کے بندے ہو۔ دنیا برداشت پر چلتی ہے مگر جو تمہاری بات نہ مانے تم اس پربرسنا شروع کردیتے ہو۔

صدر ٹرمپ:تم سب کاغذی صدر تھے میں طاقتور صدر ہوں میں نئی دنیا تخلیق کررہا ہوں تمہاری دنیا اور ورلڈ آرڈر فرسودہ ہوچکا ہے اب نئےسیاسی اور معاشی نظریات چلیں گے100سالہ پرانی کہانیاں اب نہیں چل سکتیں، مجھے نوبل امن انعام مل کر رہے گا۔

صدر اوباما:جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کا تصورچھوڑ کر یہ دنیا کہیں کی نہیں رہے گی ظالموں، آمروں اورطاقتوروں کی دنیا میں سچ کون بولے گا ،حقوق کی جنگ کیسے ہوگی۔

صدر ٹرمپ: ہر بڑی تبدیلی اور انقلاب کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار ہوتا ہے مگر وقت بدلے تو تبدیلی آکر رہتی ہے۔

(یہ مناظرہ سراسر فرضی ہے ۔ اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ دکھائی دے تو اسے نظر انداز کر دیں )

تازہ ترین