ساؤتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام جنوبی ایشیا کے انتظامی و سیاسی امور کس طرف کا سفر اختیار کررہے ہیں پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اس وقت دنیا بھر میں نظریاتی تحاریک کی اٹھان کا معاملہ بہت کمزور پڑ چکا ہے اور جنوبی ایشیا میں یہ صورتحال نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتی ہے ۔ بنگلہ دیش میں طلبہ کی جانب سے گزشتہ برس حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ دینا کسی باقاعدہ نظریاتی تحریک کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ بنگلہ دیش میں بڑھتی بیروز گاری اور حسینہ واجد کا مکمل طور پر آمرانہ طرز عمل اس ساری صورت حال کا موجب بنا ۔ حسینہ واجد ایک سیاسی جماعت کی سربراہ ہونے کے باوجود خالص طور پر ایک آمر کا روپ دھار چکی تھیں ۔ وہ گڑے مردے اکھیڑ کر زندوں کو دفن کرنے میں منہمک تھیں اس بات سے بے خبر کہ بہت دیر تک عوام کو صرف نعروں یا ماضی کے قصوں سے نہیںبہلایا جا سکتا ۔ اس سبب سے وہ اقتدار سے بے دخل ہوئیں مگر اس سے یہ تصور کرلینا کہ ان کی سیاسی حمایت بنگلہ دیش میںماضی کا حصہ بن کر رہ گئی، درست تجزیہ نہیں ہوگا اور اسکے ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ کسی قسم کی باقاعدہ نظریاتی سوچ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس تحریک کے کوئی خاص اثرات جنوبی ایشیا کے ممالک بشمول پاکستان پر مرتب نہیں ہوئے اور نہ ہی ہونے کے امکانات موجود ہیں ۔ ہال میں موجود طلبہ کے اس سوال کہ اب انڈیا پاکستان سے کیوں بات چیت نہیں کر رہا ہے جبکہ ماضی میں یہ مشق کئی بار کی گئی؟ عرض کیا کہ 1999 ءکے وقت تک انڈیا اور پاکستان کی معیشتوں میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا مگر 1999 ءکے بعد یہ فرق بتدريج بڑھتا چلا گیا اور اس فرق کے اثرات کے سبب پاکستان کی عالمی برادری میں بھی اہمیت میں کمی محسوس ہوئی جبکہ انڈیا جگہ جگہ اپنے پنجے گاڑتا ہوا نظر آیا اور اس صورت حال نے انڈیا میں احساس برتری کو بہت مضبوط کردیا اور وہ بات چیت کی ضرورت سے اپنے آپ کو ماورا تصور کرنے لگا ۔ اس معاشی برتری کے احساس کیساتھ ساتھ عسکری برتری کا بھی تصور پنپنےلگا، وہ تو انڈیا کے موجودہ حکمران طبقے کی نا اہلی ہے کہ اس نے اس عسکری برتری کے تصور کو میدان میں لا کھڑا کیا ، طاقت کی حدود ہوتی ہیں جب وہ برہنہ ہو جائے تو اس کی حدود کا تعين ہو جاتا ہے ۔ پاکستان نے اس برہنہ طاقت کو بے دست و پا کر کے اس طاقت کے طلسم کو بھسم کر دیا ۔ اور اس نئی صورتحال کے اثرات صرف پاک،بھارت تعلقات تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ پیسفک اور بحرہند کے امور کو دنیا اور طرح سے دیکھنے پر مجبور ہو گئی اور پاکستان کی بالخصوص بحیرہ عرب میں موجودگی بہت بڑھ گئی، جس کے اثرات دور دور تک محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ پھر اس گزشتہ پاک بھارت تصادم نے بہت سارے دیگر امورپر بھی دنیا کو از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ، مثال کے طور پر تصور یہ مضبوط تھا کہ دو ایٹمی طاقتیں کسی جنگی کیفیت سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھیں گی کیوں کہ وہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے بخوبی آگاہ ہوتی ہیں مگر اس جنگی صورت حال نے واضح کر دیا کہ دو ایٹمی طاقتیں بھی بین الاقوامی سرحد پر ٹکرا سکتی ہیں ۔ اس صورت حال کو کسی زبانی جمع خرچ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، کوئی براہ راست گفتگو ہو یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی ، جب تک کشمیر پر انڈیا بامعنی گفتگو نہیں کرتا ہے اس وقت تک پاکستان اور انڈیا کے باہمی تعلقات بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے علاقائی تعاون کی کسی خواہش کو حقیقی معنوں میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا ۔ امریکہ جیسا ملک جو دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے یہ اچھی طرح سے سمجھنے لگا ہے کہ انڈیا کے حکمران طبقے کے سرخیل نریندر مودی اب انڈیا کیلئے اثاثہ نہیں بلکہ ایک بوجھ بن چکے ہیں اور جب تک وہ انڈیا میں بر سر اقتدار ہیں اس وقت تک انڈیا کیلئے امن کی جانب قدم بڑھانا ممکن نہیں رہا ۔ اس حقیقت سے پاکستان بھی اچھی طرح سے آگاہ ہے کہ مودی سے گفتگو شروع کرنے کی توقع رکھنا عبث ہے حالانکہ پاکستان اور انڈیا کے مسائل کا حل صرف گفتگو میں پوشیدہ ہے ۔ اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کےپروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی آبادی دنیا کی 25فیصدآبادی ہے لیکن اس کی ترقی پر تنازعات نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سابق سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی اور غربت کے خاتمے جیسےمسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025ءکا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ، بالاکوٹ 2019ءکے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019ءمیں، ہم رد عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025ءمیں، ہم تیار تھے۔ سابق سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش ڈاکٹر شریف العالم ، صدر ساؤتھ ایشین نیٹ ورک آف پبلک ایڈمنسٹریشن ڈاکٹر اخلاق ، ڈائریکٹر کاشف راٹھور ،ڈاکٹر محفوظ ، ڈاکٹر غالب عطاء اور ڈاکٹر امانی معظم نے اپنے خطبات میں اس پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کی ترقی کا راز باہمی تعاون میں پوشیدہ ہے ۔