اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بھوک اور شدید انسانی بحران سے نبردآزما لاکھوں فلسطینیوں تک امداد پہنچانے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے، اسرائیلی پابندیاں اب بھی امدادی سامان کی ترسیل میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
عالمی خوراک پروگرام (WFP) کی سینئر ترجمان عبیر عطفہ نے منگل کے روز میڈیا بریفنگ میں کہا کہ گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بعد امدادی سرگرمیوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن صرف دو بارڈر کراسنگ کھولے جانے کے باعث امداد کی مقدار انتہائی محدود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں غزہ کے عوام تک مکمل رسائی چاہیے، ہمیں امداد پہنچانے کی رفتار تیز کرنی چاہیے، یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے، سردیاں قریب ہیں، لوگ بھوک کا شکار ہیں اور ضروریات بے حد زیادہ ہیں۔
شمالی غزہ تک رسائی سب سے بڑا چیلنج
اقوامِ متحدہ کی ترجمان عبیر عطفہ کے مطابق عالمی خوراک پروگرام اس وقت غزہ میں 44 فوڈ ڈسٹریبیوشن پوائنٹس چلا رہا ہے اور جنگ بندی کے آغاز یعنی 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 10 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو غذائی امداد فراہم کی جاچکی ہے تاہم شمالی غزہ تک امداد پہنچانا بدستور مشکل ہے جہاں اگست میں عالمی سطح کے بھوک کے مانیٹرنگ ادارے نے قحط کی صورتحال کی تصدیق کی تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ شمالی راستے بند ہونے کے باعث امدادی قافلے جنوب سے ایک طویل اور دشوار راستے سے گزرنے پر مجبور ہیں، امداد بڑے پیمانے پر پہنچانے کے لیے تمام کراسنگز، خصوصاً شمالی راستے کھولنا ضروری ہیں، مرکزی سڑکوں تک رسائی بھی ناگزیر ہے تاکہ خوراک جَلد از جَلد ضرورت مندوں تک پہنچ سکے۔
تباہ حال غزہ کے بے گھر خاندانوں کا خیموں کے بغیر سردی کا سامنا
جنگ بندی کے بعد ہزاروں فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹ آئے ہیں مگر ان میں سے اکثر نے اپنے گھروں کو ملبے میں تبدیل پایا ہے، وہ اب عارضی خیموں یا خود ساختہ پناہ گاہوں میں موسم سرما کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
’امداد میں کمی معاہدے کی خلاف ورزی ہے‘
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق 10 سے 31 اکتوبر کے دوران صرف 3203 تجارتی و امدادی ٹرک داخل ہو سکے، یعنی یومیہ اوسطً 145 ٹرک، جو طے شدہ 600 ٹرکوں کا صرف 24 فیصد ہے۔
اس دوران اسرائیلی فوج حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک کم از کم 240 فلسطینی شہید اور 607 زخمی ہوچکے ہیں۔