ہمارے عوام کو اس وقت جو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں غربت، بیروزگاری ، مہنگائی، لاقانونیت اور بے انصافی کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ مذہبی جنونیت کابھی ہے۔ جسکی بنیادیں جہالت پر استوار ہیں، جو براستہ انتہاپسندی، ٹیرر کی طرف لیجاتی ہے۔ یہاں ناخواندگی کو بالعموم جہالت کے معنوں میں لیاجاتا ہے لیکن درویش کی نظروں میں ایسے پڑھے لکھوں کی بھی کمی نہیں ہے جو جنونیت پھیلانے میں ان پڑھوں سے بھی دس ہاتھ آگے ہیں۔ محض پڑھ یا لکھ لینا تعلیم نہیں جب تک وہ انسانی شعور کو جلا نہ بخشے،آگہی کا حقیقی مدعا ہی یہ ہے کہ آپ کی شعوری سطح کہاں تک پہنچی ہے؟؟بدھا نے کیا خوب کہا تھاکہ آتما سے بھی بڑھ کر شعور ہے جو کبھی نہیں مرتا، اس کی پھیلائی روشنی آگے سے آگے بڑھتی ہے۔آپ کو زندگی میں ایسے افراد سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا ہو گا جو بظاہر ان پڑھ ہونگے مگر ان کی شعوری سطح کئی لکھاریوں سے بہتر ہوگی۔ جو لوگ کسی بھی ایشو کی روٹس تک نہیں جاتے انکی سوچ کا سطحی پن انکی باتوں یا تحریروں سے واضح ہوجاتا ہے۔ایسے زیادہ تر لوگ حال کی بجائے ماضی میں جیتے ہیں ، آئین نو سے ڈرنے کا یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو تضادستان پرمسلط ہے۔ یہ طالبان کوئی آسمان سے تو نہیں گرے تھے اسی روایتی مائنڈ سیٹ کی پیداوار ہیں جسے آپ مطالعۂ پاکستان کا نام دے سکتے ہیں۔ بظاہر ”طالبان“کے معنی ہیں علم کے طالب لیکن ان علم کے طالبوں کی شعوری سطح آج بھی صدیوں پرانی ہے۔ طالبانی ذہنیت کسی جبے عمامے کی محتاج نہیں ہوتی اسے بظاہر پینٹ کوٹ ٹائی یا جینز میں بھی ملاحظہ کیاجاسکتا ہے، اس مائنڈ سیٹ کی مطابقت میں کئی صاحبان اسامہ بن لادن کو ہیروبناتے رہے ۔ اِن دنوں انہیں حماس کے جہادی اپنی شعوری سطح کی عین مطابقت میں لگ رہے ہیں۔اسامہ بن لادن نے اپنی جدوجہد کا آغاز فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے جذباتی نعروں سے کیا تھا یہ الگ بحث ہے کہ وہ مابعد استعمال سوویت یونین کے خلاف ہوگیا۔ ہمارے جذباتی لوگ عامۃ المسلمین کو بیوقوف بنانے کیلئے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر کا نام لیتے ہیں ۔ گویا یہ مسائل حل ہوگئے تو نجانے کونسی خلافت اسلامیہ قائم ہو جائیگی ۔ درویش ذمہ داری سے یہ لکھے دیتا ہے کہ وقت ثابت کرئیگاکہ یہ ڈیڈ ایشوز تھے جو آپ کے وسائل کو کھا گئے آپ کی چوٹ دماغی تھی لیکن خود ساختہ حکیمان امہ آپریشن گوڈوں گٹوں کا کرتے رہے ۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں انصاحبان کو شرم الشیخ جنگ بندی معاہدے میں بھی کیڑے دکھنے لگے ہیں حالانکہ ٹرمپ کےاسی بیس نکاتی غزہ امن معاہدے پرکامل اتفاق کرتے ہوئےترکیہ،اردوان، مصر اور قطر نے بھی دستخط کیے بلکہ پوری اسلامک عرب دنیا کی قیادتیں امریکی صدر ٹرمپ سے اس قدر ہم آہنگ ہوئیں کہ پاکستانی پرائم منسٹر نے اس موقع پر ٹرمپ کو عالمی امن کا حقیقی علمبردار قراردیا ، ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور انکی امن کاوشوں پرایسا شاندار قصیدہ پڑھا جس پر خود ٹرمپ بھی بول اٹھے’’اب کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا چلو گھر چلتے ہیں‘‘۔ ہمارے پرائم منسٹر کی اس سمجھداری اور کمٹمنٹ کے بعد بھی اگرہمارے دانشور کہتے ہیںکہ ہم حماس کو دہشتگرد نہیں مانتے اور اسے غیر مسلح کرنے والی شقوں کو تسلیم نہیں کرتے تو کیا وہ پاکستانی قیادت کو منافق ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ جنونیت نہیں تو کیا ہے ؟درویشی تو عاجزی و حلیمی سکھاتی ہے، یہ شعور کو خانقاہ کے پچھواڑےمیں رکھ کر کسی کی اندھی حمایت یا مخالفت نہیں کرتی۔ہمارے درویش اور صوفی تو تمام انسانوں کو اللہ کا کنبہ قرار دیتے تھے۔ بابا بلھے شاہ سرکارنے کیا خوب فرما ریا کہ ’’گل سمجھ لئی تاںرولا کیہ...ایہہ رام رحیم تے مولا کیہ ‘‘۔درویش ڈاکٹر راغب نعیمی کی دعوت پر جامعہ نعیمیہ کی سالانہ تقریب میں حاضر ہوا تو ایک کالم نگار دوست نے پوچھا ’’ایک سیکولر کا کیا کام ہے کہ وہ مولویوں کی مذہبی تقریب میں شرکت کرے؟“ عرض کی ”آپ صوفیاء کی انسان نوازی پر مبنی روشن خیالی کو مانتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح دانا اور اولیا کا بنا سانجھا ہوتا ہے اسی طرح صوفی اور سیکولر کی اپروچ شعوری بلندی پر ایک ہوجاتی ہے ‘‘۔آپ فلسطین اور کشمیر کے جن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، ان کی اصلیت قوم پر واضح کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اگر آپ لوگ جنونیت کو خیرباد کہہ دیں۔ ہماری حکومت اور طاقتوروں میں ایک سو ایک خرابیاں ہونگی لیکن ان دنوں انہوں نے ایک طرف داخلی حوالے سے جنونیت کو لگام دینے کی جسارت کرتے ہوئے، کچھ احسن اقدامات کیے ہیں، ائمہ مساجد کا پچیس ہزار وظیفہ مقررکیا ہے جو بتدریج پچاس ہزار تک چلے جانا چاہیے،بشرطیکہ ہمارےائمہ ریاست کو وہی اہمیت دیں جو سعودی عرب ، ترکیہ اور دیگر مسلم اقوام کے ائمہ اپنی ریاستوں کو دیتے ہوئے ان کی مطابقت میں طے کردہ اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔اسی طرح دوسری طرف ہماری خارجہ پالیسی جامد کیوں ہے؟ وقت کے بدلتے تقاضوں کا ادراک کیوں نہیں کرتی؟؟ یہ لوگ اندورن ملک جو بھی کہہ رہے ہیں کم از کم عالمی سطح پر انہوں نے ٹرمپ کی خود پسندی کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ جب امریکی صدر اس طرح بول رہا ہوگا تو دنیا کے دیگر ممالک پر پاکستان کی دھاک کیوں نہیں بیٹھے گی۔ ترکوں اور پھر عربوں کو ہی نہیں شاید اب اسرائیلیوں کو بھی پاکستان کی امن پسندی سے زیتوں کی نئی کونپلیں پھوٹتی دکھ رہی ہیں۔ لہٰذا ہمارے بنیاد پرستوں کو چاہیے کہ وہ خود کو خواہ مخواہ ” جذباتی“کے خطابات سے نوازنا بند کردیں ۔ وقت کا دھارا بہت آگے آچکا لہٰذا اب بدلے عصری تقاضوں کی مطابقت میں روشن خیالی، وسیع المشربی، جدیدیت اور انسان نوازی کو کماحقہ جگہ دینی ہوگی۔