حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وقفے وقفے سے روزہ رکھنے (Intermittent Fasting) سے بالغ افراد کی دماغی صلاحیتوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا، بلکہ فیصلہ سازی، یادداشت اور مسئلے حل کرنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔
یہ تحقیق سائیکولوجیکل بلیٹن (Psychological Bulletin) میں شائع ہوئی ہے، جس میں ماہرین نے تقریباً 3500 شرکاء پر مبنی 71 سابقہ مطالعات کا تجزیہ کیا۔
یونیورسٹی آف آکلینڈ کے ماہرِ نفسیات ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ مورو (David Moreau) کے مطابق ہماری بنیادی دریافت یہ تھی کہ قلیل مدتی روزہ رکھنے سے ذہنی کارکردگی میں کسی قسم کی کمی کا کوئی تسلسل سے ثبوت نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ روزہ رکھتے ہیں، ان کی کارکردگی تقریباً اُن لوگوں جیسی ہی رہتی ہے جنہوں نے حال ہی میں کھانا کھایا ہو، یعنی کھانے کے بغیر بھی ذہنی صلاحیت مستحکم رہتی ہے۔
تحقیق کے مطابق 12 گھنٹے تک کے روزے سے دماغی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہیں دیکھا گیا، تاہم 12 گھنٹے سے زیادہ کے روزے میں معمولی کمی محسوس کی گئی۔
مزید یہ کہ بچوں میں روزہ رکھنے کے اثرات نسبتاً زیادہ دیکھے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمر افراد کو باقاعدہ کھانے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔
پروفیسر مورو کے مطابق بچوں کی دماغی نشوونما کے دوران انہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، اس لیے ان پر فاسٹنگ کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ صحت مند بالغ افراد کے لیے وقفے وقفے سے روزہ رکھنا محفوظ ہے۔
تحقیق کے مطابق مختصر مدت کے روزے کے دوران بالغ افراد کی ذہنی کارکردگی مستحکم رہتی ہے، اس لیے انہیں وقتی بھوک یا فاسٹنگ کے دوران دماغی کمزوری کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔