فیصل آباد کی فضا میں اکتوبر کے بعد جب دھوپ کم ہونے لگتی ہے، تو شہر کے رنگ جیسے کسی نے راکھ سے ڈھانپ دیے ہوں۔ کپاس کی بُو گھلتی ہے، بھٹوں سے اٹھتا دھواں ہوا کے پردوں میں گم ہو جاتا ہے، اور سانس لینا بھی جیسے کسی پوشیدہ گناہ کی طرح دشوار ہو جاتا ہے۔ مگر انہی دھندلی فضاؤں میں ایک نکتہ ایسا بھی ہوتا ہے جو روشنی بننے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی شخص، کوئی ارادہ، یا کوئی جذبہ ، جو چاہتا ہے کہ دھند کے اندر سے راستہ نکلے، سانس کی گتھی سلجھے اور آسمان کا چہرہ پھر سے نیلا ہو جائے۔کہا جاتا ہے کہ شہروں کو انسان نہیں، ان کے فیصلے سنوارا کرتے ہیں۔ فیصل آباد بھی اب ایک ایسے فیصلے کے زیرِ سایہ ہے جو محض حکم نہیں، بلکہ فکر کا تسلسل ہے۔ ایک ایسا خیال جو ہوا میں تحلیل نہیں ہوتا، بلکہ اسے صاف کرنے کے خواب کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہوا کی صفائی ، سننے میں ایک سادہ ترکیب، مگر حقیقت میں پوری تہذیب کی اصلاح کا استعارہ ہے۔
شہر کی صبحوں کو کبھی ملاحظہ کیجیے۔ فضا میں مٹی کے ذرے، دھوئیں کے ریشے، آہستہ آہستہ کسی زرد کمبل کی طرح اترتے ہیں۔ درخت اپنے رنگ کھو دیتے ہیں۔ دُور کھڑی فیکٹریوں کے دھوئیں میں آسمان کی لکیر دھندلا جاتی ہے۔ مگر اس سارے منظر میں، کہیں ایک خاموش نکتہ ہے ، کوئی شخص جو چاہتا ہے کہ اس راکھ میں پھر سے چمک پیدا ہو۔ کوئی ایسا دل جو سمجھتا ہے کہ اگر شہر کی فضا صاف ہو جائے تو شاید انسان کے اندر بھی کچھ صاف ہو جائے۔
بہت سے لوگ سڑکوں پر گرد دیکھتے ہیں، مگر کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں جو گرد کے پیچھے چھپا ہوا انسان دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دھواں صرف فضا کو نہیں، سوچ کو بھی کالا کر دیتا ہے۔ لہٰذا وہ ان دھوؤں کے خلاف مہم شروع کرتے ہیں ، مگر مہم کی شکل میں نہیں، ایک تمدنی تحریر کی صورت میں۔ وہ جانتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ محض صفائی نہیں، بلکہ ایک علامت ہے کہ انسان اپنے حصے کی مٹی خود دھو رہا ہے۔
جب شہر کے بازاروں میں ہوا صاف کرنے والے آلات لگائے جا رہے ہوں، تو یہ صرف مشینوں کی تنصیب نہیں، بلکہ اعتماد کی تعمیر ہے۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو’’میں تمہاری سانسوں پر یقین رکھتا ہوں‘‘۔
اور جب اینٹوں کے بھٹے بند کیے جا رہے ہوں، تو یہ کسی صنعت کی مخالفت نہیں، بلکہ فضا کے حق میں عدالت ہے۔ جب کوئی عہدیدار کہتا ہے کہ ’’فضائی آلودگی کے خلاف ایک مشترکہ حکمتِ عملی اپناؤ‘‘، تو وہ دراصل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ شہر کا ہر سانس مشترکہ ذمہ داری ہے۔کچھ لوگ اپنے نام یادگاروں پر کندہ کرتے ہیںاور کچھ شہر کی ہوا میں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلا وقت کے ساتھ مٹ جاتا ہے، دوسرا نسلوں کی سانسوں میں باقی رہتا ہے۔فیصل آباد کے ایک دفتر میں بیٹھا وہ شخص جس نے فیصلہ کیا کہ ا سموگ سے لڑائی محض لفظوں میں نہیں، عمل میں ہونی چاہیے ، اس نے دراصل ایک فکری جہاد شروع کیا ہے۔ مگر وہ اپنے نام کا علم نہیں لہراتا، وہ بس یہ چاہتا ہے کہ شہری آسمان کی طرف دیکھ کر پھر سے وہی پرانی شفافیت دیکھ سکیں جو کبھی بچپن میں دیکھی تھی۔
یہی وہ خوبصورتی ہے جو اس عمل کو اخلاقی معنویت دیتی ہے۔کیونکہ بعض کردار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے عہد میں اصلاح کے مترادف بن جاتے ہیں ، نہ وہ شور کرتے ہیں، نہ تشہیر۔ ان کے اقدامات گمنام رہتے ہیں، مگر ان کے اثرات دیرپا۔ان کے فیصلے کسی اشتہار میں نہیں چھپتے، مگر شہریوں کی سانسوں میں محسوس ہوتے ہیں۔شاید یہی وہ لوگ ہیں جنہیں تاریخ اپنی خاموش تحریروں میں محفوظ رکھ لیتی ہے۔ وہ دھند میں چلتے ہیں مگر روشنی پھیلا جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تبدیلی نعرے سے نہیں، نظم سے آتی ہے۔ ان کے لیے اصلاح ایک روز کا کام نہیں بلکہ ایک مسلسل مکالمہ ہے ، انسان اور فضا کے درمیان۔
اس شہر کی گلیوں میں اب ایک نیا سناٹا ہے ، مگر یہ سناٹا خوف کا نہیں، تیاری کا ہے۔ کوئی نظام اپنے آپ کو بدلنے کی مشق کر رہا ہے۔ افسران رابطے میں ہیں، محکمے متحرک ہیں، فضا کی نگرانی کے لیے سینسر لگ رہے ہیں، پانی کے چھڑکاؤ کے ٹرک چل رہے ہیں، اور فیکٹریوں میں چمنیوں کے دھوئیں پر گرفت سخت ہو رہی ہے۔یہ سب کچھ ایک نظم کی طرح ہو رہا ہے ، جیسے کوئی غیر مرئی موسیقار اپنے ہاتھ میں چھڑی لیے سب کو ایک تال میں بجا رہا ہو۔بعض اوقات اصلاح کا عمل اعلان سے نہیں، لہجے سے پہچانا جاتا ہے۔لہجے میں اگر خلوص ہو، تو فیصلے قانون نہیں، دعا بن جاتے ہیں۔ اور یہ شہر، جو کبھی دھواں اگلتا تھا، اب آہستہ آہستہ اپنی سانسیں سنبھال رہا ہے۔دھند کے اندر بھی روشنی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے ، یہ ایک ازلی حقیقت ہے۔ مگر اس روشنی کو جلانے کے لیے کسی کو دیا بننا پڑتا ہے۔
فیصل آباد کی اس بدلتی فضا میں، شاید کوئی ایسا دیا جل چکا ہے۔ ایسا دیا جو نام سے زیادہ عمل کو اہمیت دیتا ہے، اور جانتا ہے کہ انسان کو آسمان کی نیلاہٹ لوٹانے کیلئے زمین پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر ہوا کو چہرہ دیا جا سکتا، تو وہ شاید مسکرا کر کہتی ۔’’میرے شہر میں اب کوئی ہے جو مجھے دیکھتا نہیں، محسوس کرتا ہے‘‘۔اور یہی احساس، اصل تعریف ہے۔کیونکہ جن کی نیت میں شفافیت ہو، وہی فضا کو شفاف بنا سکتے ہیں۔باقی سب تو محض الفاظ ہیں ، مگر ان الفاظ کے درمیان کہیں، فیصل آباد کے کمشنر کا وہ خاموش عزم سانس لیتا ہے، جو دھند کیخلاف ایک مسلسل دعا کی طرح بلند ہو رہا ہے۔اور شاید آنیوالی نسلیں جب کبھی صاف آسمان کے نیچے کھیلیں گی، تو انہیں اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کی آزاد سانسوں کے پیچھے ایک ایسا شخص تھا جس نے دھند کے خلاف لڑائی کو اپنا فریضہ سمجھا۔ وہ اسے نام سے نہیں جانیں گی ، مگر وہ ہر سانس میں اس کا شکر ادا کریں گی۔