نیویارک سٹی کے میئر کے انتخابات میں امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک 34 سالہ نوجوان نے کامیابی حاصل کی ہے جو بھارتی نژاد مسلمان بھی ہے اور سوشلسٹ ڈیموکریٹ بھی ـ ۔ ظہران ممدانی ـنے عمر مذہب اور اپنے سیاسی نظریات کے حوالے سے سرمایہ داری کے گڑھ نیویارک سٹی میں جو حیران کن کامیابی حاصل کی ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ پیدائشی طور پر اس غیر امریکی نوجوان نے ایک ایسے وقت میں کھلے عام خود کو فخریہ طور پر مسلمان ، مہاجر اور سوشلسٹ ڈیموکریٹ قرار دیا ہے جب مغربی دنیا خصوصا ًامریکہ میں اسلامو فوبیا عروج پر ہے، تارکین وطن کیخلاف شدید تعصب پایا جاتا ہے اور سوشلزم کو امریکی معیشت اور معاشرے کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہےـ یہی وجہ ہے کہ اس نوجوان کے خلاف دنیا کے تمام بڑے سرمایہ دار اور رجعتی عناصر اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ـ سوشل میڈیا پر ممدانی کو دہشت گردوں کا ساتھی اور غدار تک کہا گیا۔ ـ ان کے مخالفین میں امریکی صدر ٹرمپ ، ارب پتی ا یلون مسک اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی شامل ہیں کیونکہ ممدانی سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف سب سے توانا آواز بن کر سامنے آئے ہیں ۔ـ اس سے پہلے لندن کے میئر پاکستانی نژاد صادق خان نے بھی برطانوی تاریخ میں ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی تھی۔ ـ یاد رہے یہ وہی صادق خان ہیں جن کیخلاف ریاستِ مدینہ کے داعی عمران خان اپنے یہودی برادرِ نسبتی زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت میں انتخابی مہم چلانے برطانیہ تشریف لے گئے تھے ـ۔ صادق خان اب تیسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہو چکے ہیں ـ اگرچہ صادق خان کا لندن کا میئر بننا بھی غیر معمولی واقعہ تھا لیکن ممدانی کا انتخاب اس لیے عجوبہ لگتا ہے کہ انہوں نے کھل کر اپنے سوشلسٹ ڈیموکریٹ ہونے کا اعلان کیا اور ٹرمپ جیسے سرمایہ دار اور نیتن یاہو جیسے دہشت گرد اور سب سے بڑھ کر نریندر مودی جیسے انتہا پسند کو انسانیت کا مجرم قرار دیا۔ ـ صادق خان نے کبھی کھل کر اپنے سوشلسٹ ڈیموکریٹ ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن انکے برعکس ممدانی دنیا کے بدلتے ہوئے معاشی اور سیاسی منظر نامے میں سوشلزم کے حوالے سےایک متحرک کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ـ ان کی وجہ سے دنیا میں سرمایہ داری کے گڑھ نیویارک سٹی میں سوشلزم کی آواز جس فاتحانہ انداز سے گونجی ہے اس نے ساری دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی عمر پوری کر چکا ہے اور پوری دنیا ایک مرتبہ پھر معاشی مساوات یعنی سوشلزم کے حق میں بیدار ہو رہی ہے ۔ـ ممدانی کی فتح نے پرانے سوشلسٹوں کے اس نظریے کو بھی پوری طرح مسترد کر دیا ہے کہ سوشلسٹ جمہوری طریقے سے اختیار میں نہیں آ سکتے اور ان کا فرض صرف احتجاجی جلسے جلوسوں اور ریلیوں تک ہی محدود ہے کیونکہ معاشرتی اور معاشی طور پر تبدیلی اور انقلاب صرف اقتدار میں آ کر ہی ممکن ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام میں برسرِ اقتدار آ کر سوشلسٹ اپنے نظریات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تو تمام بڑے سرمایہ دار ممدانی کی مخالفت نہ کرتے اور جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت فوج سیاسی نظام کو چلاتی ہے وہ جمہوری طور پر منتخب لیڈروں کے خلاف اقدامات نہ کرتی۔ ـ ممدانی کی فتح اسکے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اسکے سامراج مخالف نظریات کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے کیونکہ اسے نہ صرف مسلم تارکین وطن بلکہ عیسائیوں ہندوؤں اور یہاں تک کہ یہودیوں نے بھی بڑی تعداد میں ووٹ دیے ہیں جو اسرائیلی فسطائیت اور صہیونیت کیخلاف ہیں اور انتہا پسند نیتن یاہو کی فلسطینیوں کی نسل کشی کے مخالف ہیں اسی طرح ممدانی نے جس کا خود بھی تعلق انڈین گجرات سے ہے ، کھل کر نریندر مودی کی مخالفت کرتے ہوئے گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار مودی کو ٹھہرایا اور اسے انسانیت کا مجرم قرار دیا لیکن نتن یاہو کے بارے میں تو اس نے یہاں تک کہا کہ اگر وہ ان کے دورِ اقتدار میں نیویارک سٹی میں آئے تو وہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے مطابق اسے گرفتار کر لیں گے۔ یاد رہے عالمی عدالتِ انصاف نے نیتن یاہو کے فلسطینیوں پر مظالم کیخلاف اسے انسانیت کا مجرم قرار دے کر وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں ۔ـ ـ ممدانی کی فتح نے جہاں نہ صرف پوری دنیا کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو تبدیلی کا ایک قابلِ عمل راستہ دکھایا ہے بلکہ ان کی سیاسی کنفیوژن کو بھی دور کر دیا ہے لیکن ممدانی کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنے ترقی پسند اور عوامی بہبود کے سوشلسٹ پروگرام پر عمل درآمدکیلئے امریکہ کی مرکزی حکومت یعنی ٹرمپ انتظامیہ اور دنیا کے دیگر بڑے سرمایہ داروں کی طرف سے کھلی جنگ کا سامناکرنا ہوگا ـ اگر سرمایہ داری نظام نے انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے غیر اخلاقی اور غیر آئینی حربے بھی اختیار کیے تو بھی انکی جلائی ہوئی یہ شمع سرمایہ دارانہ نظام کے قلب میں روشنی کی پہلی کرن ثابت ہوگی ۔ـ آج کے نوجوان جو اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور بنگلہ دیش اور نیپال میں حکومتی تبدیلی تو لے آئے ہیں مگر کسی سیاسی نظریے سے محروم ہونے کی وجہ سے ابھی تک کنفیوژن میں ہیں انہیں ممدانی کی شکل میں ایک واضح اور قابل عمل سیاسی و معاشی نظریہ مل گیا ہے ـ ممدانی پاکستان کے ترقی پسند نوجوان سوشلسٹوں کیلئے بھی امید اور توانائی کا ذریعہ ثابت ہوں گے جو انقلاب کیلئے صرف جلسے جلوسوں کی بجائے جمہوری عمل کے ذریعے ریاستی اقتدار کے حصول کو تبدیلی کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ آج کا شعر
جنگ ہوگی اب فقط آزادیوں کے واسطے
امنِ عالم کے لئے بس امنِ عالم کے لئے