• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب میں نے اپنی گاڑی مزنگ چونگی سے جیل روڈ پر ڈالی تو اچانک مجھے ایک خوف ناک ہارن سنائی دیا اور پھر یوں لگا جیسے کسی نے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا ہے میں قدرے گھبرا گیا، میں سمجھا شاید مجھ سے بلنڈر ہو گیا ہے جس پر احتجاج کیا جا رہا ہے، میں نے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا لیکن سوائے ایک گاڑی کے جو مجھ سے کافی فاصلے پر تھی ، مجھے کوئی ٹریفک نظر نہیں آئی، اس کے باوجود میں نے سوچا اس گاڑی کو گزرنے دینا چاہیے چنانچہ میں نے گاڑی آہستہ کر دی اور بائیں لین میں آ گیا، میرے پیچھے آنے والی گاڑی نے مجھے اوور ٹیک کیا اس میں ایک صاحب قسم کا دیسی بابا اور ایک میم قسم کی دیسی مائی بیٹھی ہوئی تھی۔ میرے راستہ دینے کے باوجود بابا مسلسل بارن بجائے جا رہا تھا، میں نے قیاس کیا کہ بابا اپنی مائی کو خوش کرنے کیلئے ہارن بجا رہا ہے، لیکن مائی کے کھنچے ہوئے چہرے سے لگا کہ اسے ہارن بجنے پر کوئی خوشی نہیں ہو رہی ۔ دریں اثنا بابے نے تھوڑی دیر کیلئے ہارن سے ہاتھ اٹھا لیا ، اس سے مجھے تسلی ہوئی کہ ہارن میں کوئی خرابی نہیں، اگر کوئی خرابی ہے تو وہ بابے میں ہے۔اس وقت سڑک پر بہت معمولی ٹریفک تھا۔ میرے پیچھے تو پھر بھی دو ایک گاڑیاں تھیں جبکہ بابے کے سامنے سڑک خالی پڑی تھی ، بابے نے ایک دفعہ پھر ہارن پر ہاتھ رکھ دیا ، وہ غالباً سٹرک کو سامنے سے ہٹنے کیلئے کہہ رہا تھا، خدا کا شکر ہے کہ سڑک نے اس کا کہا نہیں مانا، کیونکہ سڑک اگر تعمیل ارشاد پر اتر آتی تو بابا بابی تو اپنے وقت پر اس کی آغوش میں جا گرتے جبکہ میرے بارے میں شائع ہونے والے تعزیتی بیان’’ بے وقت موت‘‘ کے الفاظ سے شروع ہوتے !سڑک نے جب بابے کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو بابے نے ہارن پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مجھے اس عجیب و غریب مخلوق سے کچھ دلچسپی سی پیدا ہو گئی تھی اور اب میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا چنانچہ میں نے گاڑی قدرے تیز کی اور پھر اس کے برابر میں لا کر اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ میں گاڑی کے چونکہ بائیں جانب تھا، اس لیے بابے کی بجائے مائی صاحبہ میری نظروں کی زد پر تھیں۔ مائی کا چہرہ اسی طرح کھنچا ہوا تھا، بابے نے ہارن بجا کر اسے غالباً ایک دفعہ پھر خوش کرنا چاہالیکن مائی نے ان طفل تسلیوں سے خوش ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ اب اس نے سامنے کی بجائے سوجےہوئے منہ کو میری طرف پھیرلیا مجھےدیکھ کر مائی کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ ابھری یہ مسکراہٹ اتنی خوفناک اورخطرناک تھی کہ میں نے ڈر کر گاڑی تیز کر دی اور بابے کے سامنے آگیا۔ اب بابے کی گاڑی میرے پیچھے تھی اور میں نےرفتارجان بوجھ کر کافی کم کردی تھی ۔میں چاہتا تھا کہ بابے کو ایک دفعہ جائز طور پر ہارن بجانے کا موقع ملے اور میں اسکے جواب میں اس کیلئےراستہ چھوڑ دوں مگر لگتا تھا جیسے بابےکو سکون سا آ گیا ہے میں نے گاڑی کی رفتار اور کم کردی، بابا بھی اسی نسبت سے آہستہ ہو گیا ، نہ وہ لین بدل رہا تھا اور نہ ہارن بجا رہا تھا ۔میں نے تنگ آکر اس کیلئےراستہ چھوڑ دیا !جب بابے نے سڑک خالی دیکھی تو اس نے ایک دفعہ پھر ہارن بجانا شروع کر دیا میں نے سوچا یہ کیسا عجیب شخص ہے، دیکھنے میں بالکل نارمل اورخاصا معتبر سا لگتا ہے لیکن اس کی دماغ کی ساری چولیں مکمل طور پر ڈھیلی ہیں، میں نے سوچا مجھے اس سے بات کرنی چاہیے، چنانچہ گاڑی سرخ سگنل پر رکی اور میں اس کی طرف جانے کیلئےابھی دروازہ کھول ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی بالکل میرے برابر آن کھڑی ہوئی، اس نے میرے اور اپنے درمیان اتنی جگہ بھی نہیں چھوڑی تھی کہ میں دروازہ کھول سکتا۔ سرخ سگنل کے باوجود بابا ہارن بجائے جا رہا تھا، اس دوران آگے پیچھے اور ارد گرد کافی گاڑیاں جمع ہوگئی تھیں اور ان میں بیٹھے ہوئے لوگ اس بیوقوف بابے کو غصے سے گھور رہے تھے جو بلا وجہ فضا کے شور میں اضافہ کر رہا تھا۔ سگنل سرخ سے پیلا اور پیلے سے سبز ہوا تو گاڑیاں ایک زناٹے سے آگے بڑھ گئیں۔اس وقت بابے کے آگے پیچھے گاڑیاں تھیں اور اسے راستہ لینے کیلئےجائز طور پر ہارن بجانے کی ضرورت تھی لیکن اب وہ ہارن نہیں بجا رہا تھا بلکہ پورے سکون سے گاڑی چلانے میں مشغول تھا۔ میرے لیے اس مضحکہ خیز صورت حال کو برداشت کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ میں بابے کو روک کر اس سے بات ضرور کروں گا چنانچہ میں گاڑی بابے کے برابر میں لے گیا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کو کہا، میں چونکہ اس کے بائیں جانب تھا، اس لیے ایک دفعہ پھر مائی صاحبہ سے میری آنکھیں چار ہو رہی تھیں، موصوفہ نے مجھے اشارہ کرتے دیکھا تو انہوں نے شرما کر بابے کو کہنی ماری، بابے نے غصےسے میری طرف دیکھا، میں نے اشارے سے اسے گاڑی روکنے کیلئےکہا اور پھر تھوڑی دیر بعد سڑک کے ایک طرف ہم دونوں کی گاڑیاں آگے پیچھے کھڑی تھیں!’’کیا بات ہے ، آپ نے مجھے کیوں روکا ہے؟‘‘مجھے بابے کی ہارن جیسی آواز سنائی دی۔’’میں اس کیلئےمعذرت خواہ ہوں لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ بلاوجہ ہارن کیوں بجائے جا رہے ہیں اوریہ بھی کہ جہاں ضرورت ہے وہاں آپ ہارن نہیں بجاتے ؟“اس پر بابے کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے کہا ’’ برخوردار میں تمہارے سامنے جوابدہ نہیں ہوں تم نے مجھے روک کر میرا قیمتی وقت ضائع کیا‘‘ اور اسکے ساتھ ہی وہ پاؤں پٹختا ہوا اسٹیرنگ پر جا بیٹھا اور ایکسیلیٹر پر پاؤں اور ہارن پر ہاتھ رکھ دیا مگر پھر نجانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے گاڑی ریورس کی اور میرے برابر میں لاکر کہا’’ یہ صرف تمہیں میرے بلاوجہ ہارن بجانے پر کیوں اعتراض ہے ساری قوم اس مشغلے کو اپنائے ہوئے ہے، روک سکتے ہو تو ان سب کو رو کو‘‘۔اور میں نے سوچا باباٹھیک کہتا ہے ، ہم لوگ وہاں اپنے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں جہاں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی اور جہاں شور مچانا ضروری ہوتا ہے، وہاں ہم لوگ چپ سادھ لیتے ہیں، ہماری قوم کی اصل بد قسمتی یہی ہے کہ ہم نے ایشوز کونان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشوز میں تبدیل کر لیا ہے ! ہم امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیتے ہیں اور مچھر کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں کہ اسے مارنا جائز ہے کہ نا جائز ؟

تازہ ترین