• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور افغان حکومت کا پاکستان کیلئے عمومی رویہ مجھے ایک نیک نیت اور مخلص نوجوان کی یاد دلاتا ہے۔ وہ مخلص نوجوان اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو پنجاب کے ایک ضلع میں واقع اپنے آبائی گھر سے اپنے ساتھ کراچی لے گیا تھا۔ جہاں وہ ایک اچھی جاب کرتا تھا۔ اور وہ اپنا قیمتی وقت اور مالی ذرائع ان پر خرچ کرنے لگا جو اسے اپنا مستقبل مزید بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہیے تھے۔ وہ دونوں بھائیوں کو خود ذاتی طور پر پڑھاتا اور ان کی شخصیت کی گرومنگ ایسے کرتا کہ ایک دفعہ ایک اعلیٰ پائے کے ہوٹل کا مالک دنگ رہ گیا تھا۔

مالک اس نوجوان سے گویا ہوا ’’میں دس سال کی عمر سے اپنے اس ہوٹل میں اپنے والد کے ساتھ آنا شروع ہوا تھا۔ ساری زندگی کے ایسے تجربے کی بنیاد پر میں اتنا ماہر ہو گیا ہوں کہ اب ساٹھ سال کی عمر میں جب کسی گاہک کو ہوٹل میں قدم رکھتے دیکھتا ہوں تو اسی وقت سمجھ جاتا ہوں کہ یہ انسان کیا ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے۔ مگر آپ واحد انسان ہیں جنہیں میں سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر آپ کی عمر دیکھی جائے تو یہ بڑے بڑے لڑکے آپ کے بیٹے نہیں ہو سکتے۔ مگر انکے ساتھ آپ کے رویے اور برتائو پر غور کروں تو ماں باپ کے علاوہ کوئی اور ایسا کرنہیں سکتا‘‘۔ جب وہ دونوں لڑکے جوان ہو کر اپنے گھر بار والے ہو گئے تو اپنے اسی بڑے بھائی کے ساتھ وہ سلوک کرتے تھے جیسے وہی ان کا سب سے بڑا دشمن ہو۔ افغانستان کے باسی بھی اب پاکستان کے ساتھ سو فیصد وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جب ان کے ملک پر باہر کی قوتیں (سوویت یونین اور امریکی فوج وغیرہ) قبضہ کر لیتی تھیں اور افغان بے یار و مددگار ہوتے تھے تو پاکستان والدین کی طرح افغان مہاجرین کو اپنی آغوش میں لےلیتا تھا۔ افغانستان کے موجودہ وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی پاکستان میں پلےبڑھے۔ پاکستان کے مدرسوں میں ہی فری تعلیم پائی اور یہیں مفت کی روٹیاں توڑیں۔ اب جوان ہو کر کسی قابل ہوئے ہیں تو پاکستان کے دشمن بھارت جا کر پاکستان کے خلاف سو فیصد بھارتی لب و لہجہ استعمال کر رہے ہیں۔ ’’(پاکستانیوں نے)ابھی ہماری شمشیر زنی نہیں دیکھی‘‘۔ ماشا اللہ! انڈیا میں پریس کانفرنس کے دوران کیا ’’خوبصورت‘‘ الفاظ استعمال کیے ہیں امیر خان متقی نے پاکستان کے خلاف!! وہ بھول گئے کہ کم عمری میں یہی پاکستان ان کا مائی باپ تھا! شاید انیس انصاری کی غزل کا مطلع اسی کیفیت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

جتن کیے تھے بہت، جن کو پالنے کے لیے

وہی چلے ہمیں گھر سے نکالنے کے لیے

افغان وزیر خارجہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ مودی کی انتہا پسند حکومت کبھی دل سے اسلام کے علمبرداران طالبان کی ہمدرد نہیں ہو سکتی۔ امیر خان متقی صرف’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘والا فارمولا استعمال کر کے اپنی عاقبت بگاڑ رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے افغان طالبان کو پیار سے اپنے بچے قرار دیا تھا۔ جبکہ ISI کے سابق چیف جنرل حمید گل نے اپنائیت کے اظہار کیلئے افغان طالبان کو اپنا مرید کہا تھا۔ اسکے باوجود آج تک انکے حکومتی اہلکاروں کی زبان سے پاکستان کیلئے کلمہ خیر نہیں نکلا۔ ملا عمر کی سربراہی میں قائم ہونے والی پہلی طالبان حکومت پاکستان کیلئے اپنے ہاتھوں سے اینٹیں جوڑ کر بنائی ہوئی عمارت کی طرح تھی اور موجودہ طالبان بھی اس غلط فہمی سے باہر نکل آئیں کہ انہوں نے امریکی فوج کو شکست دے کر افغان حکومت حاصل کی ہے، افغان طالبان کو ہمیشہ پاکستان کی مدد حاصل رہی ہے۔

امریکی فوج نے خود افغانستان طالبان کے حوالے صرف اور صرف اس لیے کیا ہے کہ طالبان ISIS کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ کیونکہ امریکی ISIS کے عزائم کو انتہائی خطرناک جبکہ طالبان کو قابل برداشت سمجھتے ہیں۔ اور امریکیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ ان سے ملتی جلتی کوئی مقامی قوت ہی ISIS کا راستہ روک سکتی ہے۔

امریکی فوج کی اپنے گھر واپسی کے بعد جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو ہر پاکستانی خوش تھا۔ اس لیے طالبان حکومت کا پاکستانیوں کیلئے موجودہ رویہ ہماری سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن پر اختلافی نقطہ نظر تھا توبھی ضابطہ اخلاق کے اندر رہ کر افغانی حکومت اظہار کر سکتی تھی۔ یہ کیا ہوا کہ وزیر خارجہ متقی انڈیا کا اس وقت دورہ کرے کہ جب مئی 2025 کی جنگ کے بعد پاک انڈیا تعلقات ٹینشن کی بلندیوں پر ہیں اور وہاں جا کر انتہا پسند ہندوئوں کے سامنے پاکستان کے بارے انتہائی ناقابل برداشت زبان استعمال کرے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو جائیگی کہ متقی، مودی حکومت کے ساتھ مل کر وہاں کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں حصہ دار بن جائیں گے۔ حالانکہ کھرا سچ یہ ہے کہ مودی RSS کے تربیت یافتہ ہیں۔ جس کا نظریہ یہ ہے کہ پورے کا پورا برصغیر مسلمانوں سے پاک ہو جائے اور برصغیر صرف اور صرف ہندوئوں کا گھر ہے۔ کیا متقی RSS کے اس فلسفے کے قائل ہیں کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کو دیس نکالا دے دیا جائے؟

استنبول مذاکرات میں ہٹ دھرمی نے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ پاکستان افغانیوں کی جتنی خاطر مدارت اور بَھلا کر لے آخر میں انہوں نے اسٹینڈ پاکستان کے خلاف ہی لینا ہے۔ ظاہر شاہ کی بادشاہی سے لے کر آج کے طالبان کی امارت تک ہمیشہ ہی افغان حکومتیں پاکستان کی مخالف رہی ہیں۔ اس لیے مستقبل میں افغانستان میں چاہے کوئی بَلابھی نازل ہو جائے ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک افغان مہاجر کو بھی پاکستان کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دے۔ اور موجودہ افغان حکومت کو بھی کسی قسم کا ریلیف نہ دے۔ !!

تازہ ترین