ایک مسلمان ڈیموکریٹ سوشلسٹ امیگرینٹ چونتیس سالہ نوجوان ظہران ممدانی کا امریکا کے سب سے اہم شہربلکہ عالمی کیپٹل، ارب پتیوں کے شہر اور یہودیوں کے گڑھ سے جیت جانابہت سے لوگوں کیلئے باعثِ حیرت ہے کیونکہ پریذیڈنٹ ٹرمپ اسے ہرانے کیلئےہاتھ دھو کراسکے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ دھمکیاں دے رہا تھا۔ دوسری طرف یہ نوجوان کسی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےیہاں تک کہہ رہا تھا کہ میری میئر شپ میں اگر اسرائیلی پرائم منسٹر بنجمن نیتن یاہو اس عالمی کیپٹل میں داخل ہوا تو اسے گرفتار کرلیا جائیگا۔ تاہم جو لوگ امریکی سوسائٹی کی اوپن نیس اور ڈیموکریٹک سسٹم میں موجود لبرل اپروچ کی وسعت کو سمجھتے ہیں ان کیلئے ظہران ممدانی کی جیت قابلِ فہم ہے۔ ٹرمپ امیگرنٹس کے خلاف جو بھی پالیساں اپنائے ہوئے ہیں اس امر میں کیا اشتباہ ہے کہ امریکا بنیادی طور پر ہے ہی امیگرینٹس، مہاجرین یا آبادکاروں کا ملک، ملٹی کلچرل ملٹی ریلیجیس سوسائٹی، انسانی حقوق، مواقع اور آزادیوں کی سرزمین ۔ جہاں انسانی غلامی کے ساتھ وابستہ دیگر تعصبات اور آلائشوں کو بھی دفن کردیا گیا تھا۔ یہاں کسی مسیحی کے بالمقابل کسی مسلمان، ہندو یا جیوز کی جیت اچھنبے کی بات نہیں۔ یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ امریکا کہیں مریخ پر تو واقع نہیں ہے بہرحال وہ بھی اسی زمین پر موجود انسانی سوسائٹی ہے وہاں بسنے والے تمام افراد جارج واشنگٹن، جیفرسن، ابراہم لنکن، جمی کارٹر، کلنٹن یا باراک اوباما کی ذہنی سطح کے تو نہیں ہیں۔ بلاشبہ وہاں بھی مادی مفادات کے ساتھ پروپیگنڈا سے پھیلائے گئے کئی تعصبات ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں کئی مواقع پر چرب زبان غلط لوگ بھی آگے آجاتے ہیں لیکن یہ امریکی جمہوری سسٹم کی عظمت و طاقت ہے جو انہیں موقع ملنے پر پیچھے بھی دھکیل دیتی ہے۔ آج امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ جو بھی پالیسیاں اپنانے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جسے دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملتی اسے امریکا میں مل جاتی رہی ہے۔ ہمارے لوگ فقط اسی بات پر جھوم رہے ہیں اور ہمارا سوشل میڈیا ایسی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے کہ واہ جی واہ کمال ہوگیا ہمارا ایک مسلمان نوجوان نیویارک کا میئر منتخب ہوگیا، جو ڈنکے کی چوٹ کہتا ہے کہ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے ،جو اسرائیلی حکومت اور اس کے پرائم منسٹر کیخلاف لگی لپٹی رکھے بغیر بولتا ہے فلسطینیوں پر ہونے والی بمباری کے خلاف آواز اٹھانے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دیکھاجائے تو اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں یہ تو ویسٹرن سوسائٹی اور ویسٹرن مائنڈ کی عکاسی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مظالم ہوں ویسٹ میں ہمیشہ اسکے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں ،اتنی ریلیاں شاید ہمارے مسلم ممالک میں نہیں نکلتی ہیں جتنی امریکی و یورپین ممالک میں نکلتی ہیں جبکہ ہم لوگ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مرنے والا مسلم تھا یا غیر مسلم؟ظہران ممدانی کی جیت میں بنیادی فیکٹر اس کی بے باک آواز اور انرجیٹک شخصیت تھی اس نے نیویارک کے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا انکے جینوئن ایشوز کو ٹارگٹ کیا ارب پتیوں کے بالمقابل عوام کے مسائل کو حل کرنے کی نوید سنائی۔ انکے لیے فری بسوں کا اہتمام،مکانات اور پراپرٹی کے کرایوں پر کنٹرول اورتمام مالی وسائل غریب اور متوسط طبقے کی نذر کرنے کی بات کی ۔ واضح رہے کہ 8 ملین آبادی والے دنیا کے اس شہر کا بجٹ کوئی ایک سو بیس ارب ڈالر سے زائد ہے یعنی پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی دگنا ۔تین لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین اور تیس ہزار کی پولیس نفری پر میئر کی دسترس ہوگی ۔ممدانی کیلئےٹرمپ کی کئی منفی پالیسیوں کی مخالفت بھی سود مند ثابت ہوئی جو بالخصوص امیگرنٹس کے خلاف بنائےجانے کی باتیں عام ہیں۔ اس نے کھلے بندوں کہا کہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کو اکٹھے بٹھاؤں گا۔ اس نے واضح کیا کہ مودی اور نیتن یاہو پر تنقید کا مطلب انڈیا اور اسرائیل کی مخالفت ہرگز نہیں۔ میں مسجد، مندر، چرچ اور سنی گال سب کا یکساں احترام کرتا ہوں مزے کی بات یہ ہے کہ سوشلسٹ سوچ کے ساتھ ساتھ ایل جی بی ٹی والوں نے بھی اس کی مہم چلائی کیونکہ ٹرمپ نے انہیں بھی ناراض کررکھا ہے ۔ امریکی جمہوری سسٹم کی کیا عظمت ہے کہ جب بھرے جلسے میں ان کے مدمقابل ہارنے والے امیدوار اینڈریوکومو نے انہیں مبارکباد دی اور کچھ آوازیں نو میں اٹھیں تو وہ فوراً بولے ایسے مت کہیں یہ امریکی تہذیب و روایت ہے کہ ہم جیتنے والے کو مبارکباد دیتے ہیں حتیٰ کہ جیت کے بعد ان کی تند و تیز تقریر کے باوجود امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ان کیلئے خیرسگالی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم نیویارکر عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ممدانی کے ساتھ تعاون کریں گے اور انہیں گرانٹس بھی دیں گے۔ عرض مدعا یہ ہے کہ ہمارے لوگ جومذہبی تعصبات سے باہر نکل نہیں پارہے وہ اکیسویں صدی کے آگے بڑھتے ہوئے شعور کو سمجھنے کی کوشش کریں ورنہ انہیں مایوسی و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ممدانی جیسے مسلمانوں کو اگر آپ اپنے پیمانے پر پرکھیں گے تو آپ کو نئی امریکی نسل کے رہن سہن پر کئی سوالات پیش آئیں گے۔اس کی بیوی جیساپہناوا پہنتی ہے شاید ہماری روایتی سوچ اسے ہضم نہ کر پائے،اس نے اپنی وکٹری سپیچ میں جہاں پنڈت جواہر لعل نہرو کو بطور ریفرنس پیش کیا۔ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد نے اگر اس کو ووٹ کیا ہے تو کچھ سمجھ کر ہی کیا ہے یہود کے اتنی ریشو میں ووٹ تو ٹرمپ کو بھی نہیں ملے تھے، اسی روز ورجینیا میں ڈیموکریٹ امیدوار غزالہ ہاشمی نے بھی ڈپٹی گورنر کا الیکشن جیتا ہے لیکن اس سے امریکیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ اس کا تقابل ذراپنے سماج سے کر کے دیکھیے، کیا یہاں کسی غیر مسلم کا مئیر منتخب ہونا ممکن ہے؟ ممدانی کی مسلمانی اپنی جگہ لیکن اس کی مسلمانی کے باوجود اس کا رہن سہن ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس ہے اور یہی آج کی عالمی برادری کا یونیورسل کلچر ہے، ہمیں اسی کی آبیاری کرنا پڑے گی۔