اسلام آباد کی دوپہر تھی۔سورج معمول کے مطابق چمک رہا تھا۔ عدالت کے باہر لوگ قطار میں کھڑے تھے، کچھ کے ہاتھوں میں فائلیں تھیں، کچھ کے دل میں امید۔ پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ لمحہ بھر میں زمین لرز اٹھی، آسمان سیاہ دھوئیں سے ڈھک گیا، اور انسانی چیخوں نے پورے شہر کا سکوت توڑ دیا۔ وہ وکیل جو صبح عدالت جانے سے پہلے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیر کر نکلا تھا، شام کو اسپتال کے مردہ خانے میں پڑا تھا۔ وہ سپاہی جو اپنی ڈیوٹی پر فخر کرتا تھا، اب اپنے ہی لہو میں ڈوبا ہوا تھا۔ کاغذوں کے ٹکڑے، جوتے، بیگ، فائلیں سب خون میں رنگ گئے۔
یہ دھماکہ صرف عدالت کے دروازے پر نہیں ہوا، یہ ریاست کے دل پر ہوا۔ اور یہ پہلی بار نہیں۔ ہم برسوں سے ان آوازوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہر بار کہا جاتا ہے ’’دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی‘‘، اور پھر وہی کمر اگلے مہینے کسی اور شہر میں سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ زخم کسی خودکش جیکٹ سے زیادہ گہرا ہے کیونکہ اس کے پیچھے وہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے انصاف، امن، اور عوامی تحفظ کو قربان کر کے صرف اقتدار بچایا۔
لاہور کی صبح تھی، مگر فضا میں اجالے کے بجائے گرد اور چیخوں کی آمیزش تھی۔ داتا دربار کے پاس ایک پرانی عمارت جو کبھی پرندوں کے گھونسلوں، بلیوں کے ٹھکانوں اور انسانوں کے سکون کی جگہ تھی۔ آج ایل ڈی اے کے بلڈوزروں کے نیچے کراہ رہی تھی۔ لوہے کے جنات گرج رہے تھے، دیواریں چیخ رہی تھیں، اور ہوا میں اڑتی مٹی کے ساتھ بے بسی کی ایک ایسی خوشبو گھل گئی تھی جو آنکھوں کو جلا دیتی ہے۔
بلڈوزر کے ایک وار کے ساتھ چھت گری اور ساتھ ہی درجنوں گھونسلے، انڈے، اور وہ ننھے جسم بھی جو ابھی دنیا دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔بلیاں چیختی بھاگیں، کچھ ملبے کے نیچے دب گئیں،کچھ نے اپنے بچوں کو اٹھانے کی کوشش کی مگر صرف خاک ہاتھ آئی۔ایک بلی کی مردہ آنکھیں آج بھی شاید اس طرف دیکھ رہی ہوں جہاں کبھی اس کا کٹورا رکھا ہوتا تھا۔
یہ کوئی حادثہ نہیں تھا،یہ انسانیت سے ایک سوال تھا ۔ حکومتی اہلکاروں نے جب ملبے کو ’’پروجیکٹ‘‘ کہا،تو شاید ان کے دلوں نے لمحہ بھر کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ اس عمارت میں صرف اینٹیں نہیں بستیں وہاں زندگیاں سانس لیتی ہیں،چاہے وہ انسان کی ہوں یا خدا کی دوسری مخلوق کی۔داتا دربار، جہاں لوگ دعا مانگنے آتے ہیں،اس کے میناروں پر بیٹھنے والے کبوتروں کا جھنڈگھبرا کر اڑ گیا ،جیسے برکت اور رحمت بھی لاہور کی فضا چھوڑ گئی ہو۔سرکاری اہلکاروں نے اپنے احکامات پر عمل کیا،لیکن وہ یہ نہ جان سکے کہ وہ زمین نہیں گرارہے تھے، وہ رحمت گرا رہے تھے۔
ایک پرندے کے پر کٹے،تو زمین سے دھول اٹھی،اور دھول کے اس طوفان میںایک چھوٹے سے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا:امی، یہ لوگ پرندوں کو کیوں مار رہے ہیں؟ماں خاموش رہی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ لوگ صرف پرندوں کو نہیںخدا کی طرف سےانسان کو ودیعت کردہ جذبہ رحم کو بھی مار رہے ہیں۔
جب عمارت زمین بوس ہوئی،تو فضا میں صرف دھواں نہیں پھیلا،ایک بددعا بھی اُٹھی ان بے زبانوں کی، جن کے جسم تو ملبے میں دب گئے،مگر ان کی چیخیں ابھی آسمان پر گونج رہی ہیںاور وہ بددعا بے اثر نہیں جائے گی۔وہ بلڈوزر جنہوں نے آج ان بے زبانوں کے آشیانے مسمار کیے،کل کسی اور طاقتور کے حکم پر انہی عمارتوں کو روندیں گےجن میں یہ بستے ہیں۔
یہ لاہور کا سب سے خاموش سانحہ تھا۔جہاں کوئی نعرہ نہیں لگا،کوئی احتجاج نہیں ہوا،بس چند کبوتر، چند بلیاں، چند معصوم جانیں اور ایک شہر کا ضمیرسب مٹی تلے دب گئے۔اور شاید قیامت کے دن جب حساب ہوگا،تو ان معصوم جانوں کے پر،ان کی ننھی چیخیں،اور ان کے خالی گھونسلے گواہی دیں گے کہ’’انسان نے ترقی کے نام پر رحم کو قتل کر دیا تھا‘‘۔