• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10 نومبر 2025 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ اہم اور تاریخ ساز دن ہے جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے تقریبا 46 سال بعد پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو بانی پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ملک کی سیاسی جمہوری اور ایٹمی پالیسیوں میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیں ۔ایوان قرار دیتا اور سفارش کرتا ہے کہ وفاقی حکومت شہیدبھٹو کو سرکاری طور پر قومی شہید قرار دے اور ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے ان کی شہادت کو قومی تاریخ اور ریکارڈ میں تسلیم کرے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ بھٹو کو کس جرم کی سزا ملی تھی۔جس قتل کے جرم میں انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی اس کے بارے میں تو دنیا بھر کے قانون دانوں نے شروع دن سے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ ایک عدالتی قتل ہے ۔سری لنکا کے سابق چیف جسٹس ٹی ڈبلیو راجہ رتنم نے تو اس مقدمہ قتل کے بارے میں ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس کا عنوان تھا ( judiciary in crisis )یعنی بحران زدہ عدلیہ جس میں بھٹو کیس میں عدالت کی ناانصافیوں کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس نسیم حسن شاہ ایک ٹی وی انٹرویو میں فوجی انتظامیہ کی طرف سے ججوں کے اوپر دباؤ کا اعتراف بھی کر چکے تھے لیکن گزشتہ سال اسی سپریم کورٹ نے جس نے جناب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی اپنے ایک فیصلے میں بھٹو شہید کے عدالتی فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کیخلاف مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ایسے سنگ دل حضرات جو محض اپنے ذاتی بغض ، مفادات یا کم علمی کی وجہ سے جناب بھٹو کی کردار کشی یا انکی اندھی مخالفت کرتے رہے ہیں آج وہ بتائیں کہ اگر نواب احمد خان کے قتل کا مقدمہ بھی جھوٹا تھا تو مسٹر بھٹو کو کس جرم کی سزا ملی تھی پاکستان کو 25 سال کے بعد ایک متفقہ دستور دینے کی؟ ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنے کی یا پورے عالم اسلام کے لیڈروں کو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں اکٹھا کرنے کی ؟ اور امریکہ و سویٹ یونین کے مقابلے میں اسلامی ممالک کا بلاک بنانے اور تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی ؟اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم کے دور میں ایسے دور رس نتائج کے حامل سیاسی آئینی اور انتظامی کارنامے سرانجام نہیں پائے جیسا کہ بھٹو شہید کے زمانے میں ہوئے ۔ان کے اندر بہت سی انسانی خامیاں بھی ہونگی لیکن سیاسی اور قومی فلاح و بہبود کیلئے انکا مختصر سا دور پاکستانی تاریخ کا روشن ترین دور تھا ۔ 10 مئی 2025 کو بھارت کے ساتھ ہونیوالی جنگی جھڑپ میں جناب بھٹو کے دو عظیم کارناموں نے ایک مرتبہ پھر انکی یاد تازہ کر دی ان کے شروع کیے ہوئے ایٹمی پروگرام اور ان کے سیاسی ویژن یعنی پاک چائنا دوستی جس کے وہ معمار اول تھے حالیہ جنگ میں پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر بھٹو شہید کو مزید مہلت ملتی تو شاید پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا لیکن یہ بھی ایک انہونی بات ہے کہ قدیم تاریخ کے ہیروز کے برعکس جنہیں مجرم سے قومی ہیرو قرار دینے میں صدیاں درکار ہوتی تھیں اب تاریخ نے وہ فاصلہ عشروں میں طے کر لیا ہے۔ کون جانتا تھا کہ ہم اپنی زندگی میں ہی جناب بھٹو کیخلاف ہر طرح کا ظلم و جبر ہوتا ہوا بھی دیکھیں گے اور اسی زندگی میں انہیں متفقہ قومی لیڈر اور قومی شہید ہونے کا اعزاز دینے کی باتیں بھی سنیں گے ۔تاریخ کا انصاف دیکھیے کہ آج وہ لوگ بھی جناب بھٹو کی خدمات کو سراہ رہے ہیں جو کبھی ان کے بدترین دشمن ہوتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث آج بھول کر بھی ان کا نام لینے کے لیےتیار نہیں۔پاکستان میں اگر کسی نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی کوچوں میں پہنچایا اور عوام کو اپنے ہونے کا احساس دلایا تو وہ شخص ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اس نے صرف احساس ہی نہیں دلایا بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جس سے ملک کے اندر اسٹوڈنٹ یونین ٹریڈ یونینز اور دیگر نمائندہ تنظیمیں فعال ہو گئیں اور معاشرے کے اندر برداشت کا کلچر پیدا ہونے لگا ان کے بعد آنے والے ہر حکمران نے صرف لفاظی کی اور اس خوبصورت ملک کو جو اعتدال پسندی اور میانہ روی کیلئے جانا جاتا تھا انتہا پسندی کا گڑھ بنا دیا اور ایسے لوگوں کی حمایت کی اور انہیں اس ملک میں بسایا۔ جن کا ایمان ہی دہشت گردی ہے ۔کاش آج ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیاستدان موجود ہوتا جس نے 1971 ءکے سانحے کے بعد پاکستان کو ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا تھا۔اگرچہ بھٹو شہید کو قومی ہیرو قرار دینے کا عمل بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید ۔جناب بھٹو کی نذر۔

مقتل کو جانے والی کی

وہ آب و تاب نرالی تھی

سر خم نہ کیا سردار رہا

کیا عظمت ملنے والی تھی

وہ شخص جیے گا تا بہ ابد

وہ جسم اگرچہ فانی ہے

وہ ہم میں نہیں ہے آج مگر

وہ اپنے کل کا بانی ہے

اس بہتے خون کی سرخی سے

اک نیا سویرا ابھرے گا

اب دار پہ تو انسان چڑھا

کال دار سے عیسی اترے گا

اک شخص کے سر کے بدلے میں

تازہ ترین