• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں چند روز قبل 27 ویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے اس کےبعد مختلف حلقوں کا ردعمل بھی سامنے آرہا ہے حکومت اس ترمیم کے دفاع میں مصروف ہےاور اپوزیشن کسی بھی طرح عوام کو جگانے کی کوششوں میں سرگرم ہے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے دو ججوں کے استعفیٰ بھی آگئے ہیں ۔اس وقت پاکستان داخلی طور پر سیاسی کشمکش ،معاشی بے یقینی اور ریاستی اداروں کے درمیان عدم بھروسے کے ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جس سے پاکستان سے باہر آسٹریلیا ہو یا لندن ،امریکہ ،سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات کینیڈا وغیرہ سب پاکستانی اس لیے پریشان ہیں کہ آخر پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کب ختم ہو گی ۔اس سیاسی افراتفری میں 27 ویں آئینی ترمیم نے ملکی سیاسی اور معاشی حالات میں نئی کھلبلی پیدا کر دی ہے ۔اس سے بین الاقوامی میڈیا سفارتی حلقوں میں ان اثرات کی شدت اور حدت محسوس کی جارہی ہےجس سے پاکستان کے امیج پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیںاور سافٹ امیج کو پرموٹ کرنے کے حوالے سے چیلنج بڑھ رہے ہیں۔بین الاقوامی میڈیا اور تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں پاکستان پر کئی سوالیہ نشانات اٹھا رہے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی کریڈیٹ ریٹنگ کمزور ہو سکتی ہے اگر پاکستان نے اکنامک ڈپلومیسی کے متعلق بروقت اقدامات نہ کیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم پہلو بیرون ملک پاکستانیوں کے حوالے سے قابل توجہ ہے۔اس وقت عملاََدنیا بھر میں مقیم پاکستانی پروفیشنل یا فیملیز سب پہلے ہی سخت امیگریشن ،سیکورٹی ریویو اور کنٹری ریٹنگ میں مسلسل اتار چڑھائو کے مسائل سے دوچار ہیں۔اگر 27 ویں ترمیم پر احتجاج بڑھتا ہے تو اس سے عالمی اداروں کے رویے بھی بدل سکتے ہیںجیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے ۔اسی طرح یورپی اور مشرق وسطی کے ممالک میں نئے ویزا کے اجرا میں سست روی،بیک گرائونڈ چیک مزید سخت اور خاص کر ورک،اسٹڈی اور بزنس ویزوں کے حصول میں کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں کو مناسب معلومات نہ ملنے کے باعث مختلف فورم یا مواقع پر اصل صورتحال سمجھنےمیں مشکلات پیش آرہی ہیںاور وہ اس بات کا جواب نہیں دے پا رہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کب آئےگا۔ پاکستان کی بیوروکریسی کب اپنے کردار کو اپنائے گی۔ اس وقت دنیا بھر سے پاکستانی 34 ارب ڈالر قانونی طور پر اور کافی زیادہ رقوم غیر قانونی طور پر پاکستان بھجواتے ہیں۔ اگر سیاسی استحکام نہ لایا جا سکا تو یہ فارنر پاکستان میں جائیدادوں کی خریداری یا کسی بزنس میں شراکت سے مزید گریز کر سکتے ہیں جو کہ کسی بھی لحاظ سے ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے ۔اس صورتحال کا حل یہ ہی تجویز کیا جا رہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے قدم بڑھائیں اور تمام سیاسی اکابرین کی بلاامتیاز اے پی سی بلائیں ۔ا س میں پسند نا پسند کی بجائے برابری کی بنیاد پر سب کو ڈیل کیا جائے ۔وہ سب مل کر ایک قومی لائحہ عمل تیار کر لیں جسے 2026 کا ایجنڈا برائے قومی سلامتی کا نام دیا جائے۔ اسی طرح قومی بزنس مینوں کی کانفرنس بھی متوازن سطح پر چاروں صوبوں کی نمائندگی کے ساتھ بلائی جائے۔اس وقت پریشان کن بات یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی اصلاحات کے مکمل نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سے اوور سیز پاکستانی نوجوانوں کو کئی معاشی چیلنجز در پیش ہیں جس کے باعث جاب مارکیٹ ،اسٹارٹ اپ وغیرہ کے بزنس میں توقعات کے مطابق گردش نہیں ہو رہی۔ اس لیے ملک میں فوری طور پر آئینی استحکام ،شفاف سیاسی عمل، مضبوط سفارتی مہم سے معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

تازہ ترین