• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعد علی چھیپا، کراچی

’’ڈائٹنگ…‘‘یہ لفظ سُنتے ہی ذہن میں پہلا تصوّر سلاد سے بَھری پلیٹ کا اُبھرتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی دل میں ایک عجیب سا خوف جنم لینے لگتا ہے۔ اور پھر جب ہم ڈائٹنگ کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یوں لگتا ہے، جیسے زندگی کی ساری رونقیں ہی ختم ہوگئی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے صرف کھانا کھانا ہی نہیں چھوڑا بلکہ درحقیقت اپنی خوشی اور تفریحِ طبع کےتمام ترمواقع سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔

اِن دنوں دُنیا بَھرمیں ڈائٹنگ کا رُجحان اس قدر عام ہوچُکا ہے کہ ہرروز ہی ڈائٹ پلان کی کوئی نئی قسم سامنے آجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے، دنیا میں جتنے لوگ موجود ہیں، اُتنے ہی ڈائٹ پلانز بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کےطور پر’’کیٹو ڈائٹ‘‘، ’’انٹرمیٹینٹ فاسٹنگ‘‘، ’’لو کارب ڈائٹ‘‘ اور ’’ڈیٹوکس ڈائٹ‘‘ جیسی ڈائٹنگ کی اقسام تو زبانِ زدِعام ہوچُکی ہیں۔

ڈائٹنگ کی ہر نئی قسم کے بارے میں سُننے کے بعد ہم اُس پرعمل درآمد کا عزمِ مصمّم کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ’’اب کی بار… اب کی بار ہم ضرور کام یاب ہوں گے۔‘‘ لیکن ہم یہ بُھول جاتے ہیں کہ ڈائٹنگ کے دوران سب سے سخت مقابلہ اپنے اندر موجود کھانے کی طلب سے ہوتا ہے، جو ہر تھوڑی دیر بعد ہی نِت نئے بہانوں سے سَراُٹھانے لگتی ہے۔

جیسے ہی آپ ڈائٹنگ کے ذریعے اپنا وزن کم کرنےکافیصلہ کرتےہیں، تو گویا ہرموڑ پر ایک نئے امتحان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو گھر والے ہی حیرت سے تکنا شروع کر دیتے ہیں، خصوصاً والدہ صاحبہ کو تو سلاد کے پتّے چبانا اِس طرح کھٹکتا ہے، جیسے آپ کوئی بہت بڑا جُرم کر رہے ہوں۔ وہ بار بار یہی کہتی ہیں۔ ’’بیٹا! کچھ کھاؤ تو سہی… یہ سلاد بھی کوئی کھانےکی چیز ہے؟‘‘

اس موقعے پر اگر آپ اُنہیں یہ کہتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ماں جی! یہ میری صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔‘‘، تو چُبھتی ہوئی نظروں کے ساتھ کچھ اِس قسم کے جملے سُننے کو ملتے ہیں۔ ’’تمہارا تو چہرہ ہی مُرجھاتا جا رہا ہے۔ رنگ روپ ماند پڑ رہا ہے، جسم سے نقاہت ٹپکنے لگی ہے۔‘‘وغیرہ وغیرہ اور یہ معاملہ اُس وقت مزید گمبھیر ہو جاتا ہے، جب آپ کے دوستوں کو پتا چلتا ہے کہ آپ ڈائٹنگ کر رہے ہیں۔

بظاہر تو وہ آپ کو شاباشی دیتے ہیں، مگراُن کی نیّت یہی ہوتی ہے کہ آپ جلد ازجلد ہار مانتے ہوئے اپنی اِس نام نہاد ڈائٹنگ کو خیرباد کہہ دیں۔ یہی وجہ ہے، ایسے موقعے پر کوئی نہ کوئی دوست دعوتِ طعام ضرور دیتا ہے، اور اُس ضمن میں پہلی بات یہی ہوتی ہے۔’’یار! بس ایک ہی دن کی تو بات ہے، تم کل سے ڈائٹنگ شروع کر لینا۔‘‘ اور یہ سُن کر آپ کا بھی دل مچلنے لگتا ہے۔ آپ یہ سوچ کر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا دیتےہیں کہ ’’واقعی ایک دن سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بس آج کھا لوں، کل سے دوبارہ اسٹارٹ کردوں گا۔‘‘

ڈائٹنگ کےدوران سب سے زیادہ صبر آزما لمحہ وہ ہوتا ہے، جب نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو ڈائٹنگ کے اصولوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً دفتر میں کسی کی سال گرہ کا کیک آپ کے سامنے آجائے اور آپ کو، خُود کو یہ سمجھاتے ہوئے کہ ’’ایک بائٹ سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘ اُس کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑجائے۔ اور پھرجیسے ہی کیک کا ایک ٹکڑا منہ میں جاتا ہے، تو آپ کی میٹھا کھانے کی طلب کچھ یوں بڑھتی ہے کہ بائٹس بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ آپ کو دوبارہ خُود سے یہ عہد کرنا پڑتا ہے۔ ’’بس، آج کےبعدپکی ڈائٹنگ شروع…اب دوبارہ کیک کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔‘‘ اور، ڈائٹنگ کے اِس سفر میں سب سے حیران کُن مرحلہ تو وہ ہوتا ہے، جب آپ کو ویٹ مشین پر کھڑے ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ آپ جتنا وزن کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ تو اُتنا ہی بڑھتا چلا جارہاہے۔ پہلے ہفتےمیں تو یوں لگتا ہے، جیسے جسم میں کوئی ایسی غیرمعمولی تبدیلی رُونما ہوگئی ہے، جس کے سبب کیلوریز میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دل و دماغ میں یہی سوال گونجتا رہتا ہے ’’اتنی بھوک کاٹ کر، ساری مَن پسند چیزیں چھوڑ کر آخر مُجھے فائدہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اور پھر نیند میں بھی بریانی، نہاری، پکوڑے اور حلوہ پوری ایک دوسرے کے ساتھ رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو زبردستی دبائی گئی بُھوک کو مزید بھڑکاتے اور ڈائٹنگ کے عزم کو کم زور کرتے ہیں۔ نتیجتاً، نیند سے بےدار ہوتے ہی خوف کے مارے ایک مرتبہ پھریہ تہیہ کیاجاتا ہے ’’یار! آج سے واقعی سخت ڈائٹنگ کرنی ہے،ورنہ وزن کسی صُورت کم نہیں ہوگا۔‘‘

ڈائٹنگ کی سب سے بڑی دشمن وہ دعوتیں ہیں، جن میں انواع و اقسام کی بےشمار ڈِشز موجود ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈائٹنگ کے دوران کسی شادی کی تقریب میں شرکت کرتے ہیں، تو بوفے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے ہر ڈش یہ کہتے ہوئے اپنی طرف بُلا رہی ہے کہ ’’ہم یہاں تمہارے لیے ہی موجود ہیں۔ بس صرف ایک روزکے لیے ڈائٹنگ چھوڑدو۔‘‘ ایسے مواقع پر ’’صبرواستقامت‘‘ کا مظاہرہ، کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ 

عموماً تو بریانی، قورما دیکھتے ہی اُن کی جانب بےاختیار ہاتھ بڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر’’صرف آخری بار…‘‘ کہتے ہوئے کھانے پریوں ٹوٹ بھی پڑا جاتا ہے، جیسے صدیوں سے بُھوکےہوں اور یوں پل کے پل میں ساری ریاضت اکارت چلی جاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے، کسی بھی ڈائٹ پلان کے مکمل ہونے، یعنی ڈائٹنگ چھوڑنے کے کچھ ہی عرصے بعد، زیادہ ترلوگوں کے وزن میں دوبارہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈائٹنگ کے دوران جو خُود پر اس قدر سختی اور جبر کرتے ہیں، تو ڈائٹنگ ختم ہوتے ہی اپنی مَن پسند غذائیں پہلے سے زیادہ رغبت کے ساتھ کھانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ اُنھوں نےکتنی سخت مشقت کے بعد وزن میں کمی کا ہدف حاصل کیا تھااورنتیجتاً دوبارہ زیرو پر آکرکھڑے ہوجاتے ہیں۔

قصّہ مختصر، ڈائٹنگ کا عمل یا پلان کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں اورسُرخ رُو ہونےکے لیے صرف جسمانی مضبوطی کی نہیں، اعصابی طور پر بھی طاقت وَر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

گرچہ کئی لوگ ڈائٹنگ کے نتیجے میں اپنا وزن کم کرنے میں کام یاب ہوبھی جاتے ہیں، لیکن زیادہ تر افراد کھانے کی طلب کے خلاف اس طویل جنگ میں جلد ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ 

بہرکیف، اس جنگ میں فتح انہی کا مقدر ہوتی ہے، جو ڈائٹنگ کےدوران بھی اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی کبھار ’’پاسبانِ عقل‘‘ کو نظر انداز کرکے لذیذ کھانوں سے لُطف اندوز بھی ہو لیتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید