• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عالمی یومِ برائے COPD‘‘ہر سال نومبر کے تیسرے بدھ کو منایا جاتا ہے کہ دنیا بَھر میں پھیپھڑوں کی اِس خطرناک اور بڑھتی بیماری سے متعلق شعور بے دار کیا جاسکے۔ اِس دن کے منانے کا آغاز’’ Global Initiative for Chronic Obstructive Lung Disease ‘‘(GOLD) نے اِس ضرورت کے تحت کیا کہ عوام اور حکومت، دونوں سمجھ سکیں کہ سی او پی ڈی ایک قابلِ تدارک بیماری ہے۔

بروقت تشخیص، صحت بخش ماحول، تمباکو نوشی کے خاتمے اور مناسب علاج کے ذریعے لاکھوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔اِس عالمی یوم کا بنیادی تصوّر یہی ہے کہ سانس لینے کی اہمیت، پھیپھڑوں کی صحت، فضائی آلودگی کے اثرات اور تمباکو نوشی کے نقصانات اجاگر کیے جائیں۔

سی او پی ڈی (Chronic Obstructive Pulmonary Disease) دنیا کی تیزی سے پھیلتی سانس کی بیماریوں میں سے ایک ہے، جو انسانی زندگی کے معیار کو شدید متاثر کرتی ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر سانس کی نالیوں میں مستقل سوزش، پھیپھڑوں میں آکسیجن لینے(Inspiration) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر نکالنے کے عمل (Expiration) میں رکاوٹ اور پھیپھڑوں کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ نتیجتاً مریض کو سانس لینے میں مسلسل دشواری، تھکاوٹ، کھانسی اور بلغم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

یہ بیماری آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور اکثر اُس وقت تشخیص ہوتی ہے، جب مریض کے پھیپھڑےکافی حد تک متاثر ہوچکے ہوتے ہیں۔ سی او پی ڈی کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے، خواہ وہ حقّے، سگریٹ، بیڑی، شیشے یا الیکٹرانک سگریٹ ویپ(Vape) کی صُورت میں ہو۔

اس کے علاوہ، آلودہ ماحول میں رہنا، دھول، دھویں کے مسلسل اثرات، ٹریفک کے دھویں کے باعث، کارخانوں کی چمنیوں، فیکٹریز اور معدنیاتی کانوں میں کام کرنے والے افراد کا گرد آلود ماحول سے دوچار ہونا، خصوصاً دیہی علاقوں میں گھروں اور جھونپڑیوں میں جلنے والا ایندھن، جیسے لکڑی یا گوبر کا دھواں اور بچپن میں ہونے والے پھیپھڑوں کے انفیکشن بھی اِس بیماری کے اہم عوامل ہیں۔

کچھ کیسز میں جینیاتی مسئلہ، یعنی Alpha-1 antitrypsin کی کمی بھی مرض کی وجہ بنتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں گھریلو دھویں، شہری آلودگی اور تمباکو نوشی کے بڑھتے رجحان نے سی او پی ڈی کے کیسز میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

مرض کی بڑھتی شدّت کے ساتھ پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ سی او پی ڈی کے شکار افراد بار بار پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا ہوتے ہیں اور نمونیا کے حملے سے اُن کی حالت زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ شدید صُورت میں سانس کی ناکامی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جس میں پھیپھڑے جسم کو مطلوبہ آکسیجن فراہم نہیں کر پاتے۔

اِس بیماری سے دل کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور Cor Pulmonale یعنی دل کے دائیں حصّے پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ وزن میں کمی، کم زوری، تھکاوٹ اور روزمرّہ سرگرمیوں میں محدودیت بھی عام علامات میں شامل ہیں۔ مسلسل بیماری کی وجہ سے مریض میں ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن بھی پیدا ہو سکتا ہے، جو مجموعی صحت کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔

سی او پی ڈی سے وابستہ خطرات نہایت سنجیدہ ہیں، کیوں کہ یہ بیماری دنیا بَھر میں اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہو چُکی ہے۔ متاثرہ افراد کو بار بار اسپتال داخل ہونا پڑتا ہے، سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور روزمرّہ کی سرگرمیاں انجام دینا ممکن نہیں رہتا۔ 

یہ بیماری دل کے امراض، پھیپھڑوں کی دائمی کم زوری اور مستقل آکسیجن کے انحصار جیسے مسائل پیدا کرتی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی آبادی، آلودگی، مضر ِ صحت ماحول اور تمباکو نوشی نے اِس بیماری کے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

سی او پی ڈی کے عالمی یوم کا بنیادی مقصد عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ یہ بیماری قابلِ تدارک بھی ہے اور مناسب دیکھ بھال کے ذریعے اس کے اثرات کم بھی کیے جا سکتے ہیں۔ عوام کے لیے کھانسی، بلغم یا سانس پُھولنے کو معمولی علامات سمجھ کر نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

اسپائرو میٹری جیسے ٹیسٹ بروقت تشخیص میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ آگاہی مہمّات میں تمباکو نوشی کے مضر اثرات، آلودہ ماحول کے خطرات اور صحت مند طرزِ زندگی کی اہمیت نمایاں کی جاتی ہے۔

اِس بیماری سے بچاؤ کے لیے تمباکو نوشی چھوڑنا سب سے اہم قدم ہے۔ چاہے بیماری شروع ہو چُکی ہو، تمباکو نوشی تَرک کرنے سے پھیپھڑوں کی بقا میں نمایاں بہتری آتی ہے۔ فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے حفاظتی ماسک کا استعمال، دھول اور دھویں والے ماحول سے دُور رہنا، گھروں میں بہتر وینٹی لیشن کا انتظام، محفوظ ایندھن کا استعمال اور بچّوں، خواتین کو دھویں سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔ 

حفاظتی ٹیکے جیسے نمونیا اور فلو ویکسین، سی او پی ڈی کے مریضوں کی زندگی بچاسکتے ہیں اور بیماری کی شدّت بھی کم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ سی او پی ڈی کا مکمل علاج ممکن نہیں، لیکن مناسب کنٹرول کے ذریعے مریض بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ 

بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے علامات کی باقاعدہ نگرانی، اِن ہیلرز کا درست استعمال، پھیپھڑوں کے افعالی فنکشن ٹیسٹ، نمک اور چکنائی میں کمی، متوازن غذا، پانی کا مناسب استعمال اور روزمرّہ ہلکی پُھلکی ورزش مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، Pulmonary Rehabilitation پروگرام انتہائی مؤثر ہے، جس میں مریض کو سانس لینے کے بہتر طریقے، ورزش اور طرزِ زندگی میں اصلاح کی تربیت دی جاتی ہے۔ 

علاج کے طور پر برونکو ڈائلیٹرز (BRONCHODILATORS )اور اِن ہیلر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جو سانس کی نالیاں کھول کر آسودگی فراہم کرتے ہیں۔ اسٹیرائیڈز سوزش کم کرتے ہیں، جب کہ شدید متاثرہ مریضوں کے لیے آکسیجن تھراپی ضروری ہو جاتی ہے۔ 

بعض حالات میں BiPAP، وینٹی لیٹر اور دیگر معاون آلات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تاہم، بہترین علاج وہی ہے، جو بروقت شروع کیا جائے اور جس میں مریض اپنی ذمّے داری اور پابندی برقرار رکھے۔

اِس بیماری پر قابو پانے کے لیے ایک منظّم حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر اسپائرو میٹری (SPIROMETRY) کی دست یابی، پھیپھڑوں کے ماہرین کی تربیت، دیہی علاقوں میں آگاہی مہمّات، مریضوں کی بحالی کے مراکز، تمباکو نوشی کے خلاف سخت قوانین اور صنعتی آلودگی کے کنٹرول جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ 

شہری علاقوں میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ، انڈسٹری اور فضائی معیار کی نگرانی کے نظام بہتر بنانے ضروری ہیں۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر آگاہی پروگرام اِس حکمتِ عملی کا ایک اہم حصّہ ہیں۔پالیسی سازی میں حکومت کا کردار مرکزی ہے۔ 

تمباکو نوشی پر بھاری ٹیکس، اشتہارات پر پابندی، عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کے خلاف کارروائی، فضائی آلودگی پر کنٹرول، بنیادی صحت مراکز میں سی او پی ڈی تشخیص کی سہولت اور ادویہ کی ارزاں فراہمی ایسے اقدامات ہیں، جو بیماری کی شرح کم کر سکتے ہیں۔ صحت کے تمام شعبوں، ماہرین، محققّین اور حکومتی اداروں کو ایک مربوط نظام کے تحت کام کرنا چاہیے تاکہ اِس بیماری کو قومی ترجیحات میں شامل کیا جا سکے۔

اِس دن کا اصل پیغام’’سانس زندگی ہے‘‘ کے تصوّر کے گرد گھومتا ہے۔ سی او پی ڈی ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ پھیپھڑوں کی صحت ایک قیمتی نعمت ہے، جس کا کھو جانا زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ بروقت تشخیص، احتیاطی تدابیر، صاف ماحول، صحت مند عادات اور اجتماعی ذمّے داری ہی وہ عناصر ہیں، جو اِس بیماری کو روکنے اور مریضوں کو بہتر زندگی دینے میں مدد دیتے ہیں۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سی او پی ڈی صرف ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں، بلکہ قومی اور عالمی صحت کا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے حکومت، طبّی ماہرین، معاشرہ، خاندان، میڈیا اور صنعت سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اجتماعی طور پر ذمّے داری کا ثبوت دیں، تو اِس بیماری کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے اور لاکھوں افراد کو صحت مند، محفوظ اور بہتر سانسیں واپس مل سکتی ہیں۔ (مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی ، محکمۂ صحت سندھ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید