کورونا کی عالم گیر وبا کے بعد پاکستان میں معاشی عدم استحکام میں خاصا اضافہ ہوا۔ گرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے معاشی ابتری پر قابو پا لیا ہے، مگر عام پاکستانی اس کی نفی کرتے ہیں۔
دوسری جانب2008ء سے شروع ہونے والی کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ نے دُنیا بَھر میں روزگار کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند برسوں سے دُنیا بَھر کی طرح پاکستانی باشندوں نے بھی ورچوئل کرنسی میں دل چسپی لینا شروع کر دی ہے۔
واضح رہے کہ اِس وقت پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ضمن میں کوئی منظّم مالیاتی قوانین موجودنہیں۔ یعنی ہمارے مُلک میں کرپٹو کرنسی رکھنا، فروخت کرنا اور خریدنا جُرم نہیں ہے۔ سو، باقاعدہ قوانین کی عدم موجودگی کی صُورت میں، پاکستان جیسے مُلک میں رہتے ہوئے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ تاہم، اگر ورچوئل کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے، تو خطرات کے ساتھ ساتھ نقصانات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ تیز ترین اُتار چڑھاؤ: کسی بھی کاروبار میں اُتار چڑھاؤ ایک فطری امر ہے، تاہم کرپٹو کرنسی میں اُتار چڑھاؤ بہت زیادہ تیزی سے واقع ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ عمل اتنا تیز اور اچانک ہوتا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے ماہرین بھی اس کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی طرح کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ کا انحصار بھی حالاتِ حاضرہ پر ہوتا ہے۔
کسی بھی اہم مُلکی و غیر مُلکی واقعے کی ایک خبر (چاہے بعد میں وہ جُھوٹی ثابت ہوجائے) کرپٹو کرنسی کو یک دم اوپر یا نیچے لے آتی ہے۔ اس لیے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہر وقت تیز ترین اُتار چڑھاؤ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس تیز ترین اُتار چڑھاؤ کے نتیجے میں سرمایہ کار ایک دن میں لاکھوں کا نفع کما سکتا ہے، تو اگلے ہی لمحے سارے سرمائے سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔
2۔ زیادہ منافعے کی ہوس: انسان کسی بھی کاروبار میں سرمایہ کاری منافعے کی غرض سےکرتا ہے، مگر بہت زیادہ منفعت کی ہوس سرمایہ کار کو نقصان سے دوچار کر دیتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی طرح کرپٹو کرنسی میں نقصان اٹھانے کی ایک بڑی وجہ لالچ بھی ہوتا ہے۔
جب کرپٹو کرنسی اوپر جانا شروع ہوتی ہے، تو سرمایہ کار زیادہ منافعے کے لالچ میں اپنی کرنسی اُس وقت روک لیتے ہیں کہ جب اُسے فروخت کرنے کا وقت آچُکا ہوتا ہے۔
مثلاً ایک سرمایہ کار کے پاس 100 روپے کی قدر والی ورچوئل کرنسی تھی اور جب اُس کرنسی کی وقعت بڑھ کر 125 روپے ہوجاتی ہے، تو بہتر یہی ہے کہ کرنسی فروخت کر کے منافع کمایا جائے، مگر بیش تر سرمایہ کار لالچ کا شکار ہو کے یہ سوچ کر کرنسی روکے رکھتے ہیں کہ یہ200 تک بھی جائے گی، مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کرنسی کی قدر190 پر پہنچ کر دوبارہ 100 سے بھی نیچے چلی جاتی ہے ۔
3۔ نقصان برداشت کرنے کی طاقت: ہر کاروبار کی طرح کرپٹو کرنسی کی تجارت میں بھی نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں وہ لوگ، بالخصوص نوجوان سرمایہ کار جو کرپٹو کرنسی کی بنیادی باتوں سے لاعلم ہیں، ورچوئل کرنسی کی چمک دمک سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور نفع ونقصان کا اندازہ لگائے بغیر ہی اپنا سرمایہ کرپٹوکرنسی میں لگادیتے ہیں۔
ان جوشیلے سرمایہ کاروں کو منافع کمانے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ اپنی ساری جمع پونجی ہی لگا دیتے ہیں اور نتیجتاً کبھی کبھار پورے سرمائے سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتے ہیں۔ چوں کہ بڑے سرمایہ کاروں کے پاس خاصی دولت ہوتی ہے، لہٰذا وہ یہ نقصان برداشت کر لیتے ہیں، مگر چھوٹے سرمایہ کاروں کو ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھانا پڑجاتا ہے۔
اِسی طرح بہت سے لوگ قرض لے کربھی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن آپ یہ غلطی ہرگزمت کریں، کیوں کہ اپنا سرمایہ ڈوب جائے، تو انسان پھر بھی صبر کرلیتا ہے، بصورتِ دیگر قرض خواہوں کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے، جس کے بہت خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
4۔ مقامی قوانین: آپ جس مُلک میں کرپٹوکرنسی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، اُس مُلک کے کرپٹو کرنسی سے متعلق قوانین سے ضرور آگاہی حاصل کریں۔ اِن قوانین سے لاعلمی آپ کو بہت سے مسائل و مشکلات میں دھکیل سکتی ہے۔ واضح رہے، بہت سے ممالک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، جب کہ کچھ ممالک میں اِس پر مکمل پابندی عائد ہے۔
اِسی طرح کچھ ممالک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت تو حاصل ہے، مگراِس ضمن میں سخت قوانین بنائے گئے ہیں، جیسا کہ تُرکیہ میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار کی مشروط اجازت دی گئی ہےاور وہ یوں کہ وہاں آپ قانوناً کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت کرسکتے ہیں، اُسے اپنے پاس رکھ بھی سکتے ہیں، مگر اس کے عوض کوئی چیز نہیں خرید سکتے۔ یہی صُورتِ حال رُوس میں بھی ہے کہ جہاں کچھ ایسے علاقے ہیں کہ جن میں آپ کرپٹو کرنسی کی’’مائننگ‘‘ نہیں کرسکتے۔
5۔ بائنینس: اسٹاک ایکس چینجز کی مانند دُنیا میں کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کے ضمن میں بھی مختلف کرپٹو ایکس چینجز فعال ہیں۔ ان میں ’’بائنینس‘‘ بھی شامل ہے، جو ایک امریکی کرپٹو ایکس چینج ہے اور اسے دُنیا بَھرمیں کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کے حوالے سے ایک مستند پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے پاکستانی باشندوں نے اس کرپٹو ایکس چینج میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
تاہم، مذکورہ کرپٹو ایکس چینج میں سرمایہ کاری کرتے وقت اِس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ امریکا آئے روز مختلف ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کرتا رہتا ہے اور بالفرض آج اگر امریکی حکومت پاکستانی سرمایہ کاروں پر امریکا میں کرپٹو ایکس چینج میں سرمایہ کاری پر پابندی عاید کردے، تو پھر کیا ہوگا؟ یقیناً اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کا سرمایہ پھنس جائےگا۔ سو، بائنینس میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی شہریوں کو ہمیشہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے۔
6۔ سکیوریٹی: تمام ورچوئل کرنسیز بلاکس اپنا وجود برقرار رکھنےکے لیے بلاک چَین ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں اور روایتی ڈیٹا بَیس سسٹم کے مقابلے میں بلاک چَین ٹیکنالوجی سسٹم کو خاصا محفوظ بھی تصوّر کیا جاتا ہے۔
تاہم، یہ سوچ رکھنا کہ بلاک چَین ٹیکنالوجی سسٹم سو فی صد محفوظ ہے، بالکل غلط ہے۔ اس سسٹم کو بھی ہیک کیا جا سکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کرپٹوکرنسی میں سکیوریٹی نظام کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(i) ہر کرپٹو کرنسی پلیٹ فارم کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ کرپٹو کے پلیٹ فارم یعنی ایکس چینج کو ہر اعتبار سے محفوظ بنائے، مگر کبھی کبھار ہیکرز پلیٹ فارم کی کسی غلطی، خامی یا پلیٹ فارم کے کسی بےایمان اہل کار کی وجہ سے اپنے تخریبی مقاصد میں کام یاب ہوجاتے ہیں اور پلیٹ فارم میں موجود لوگوں کو اُن کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں۔
(ii) اِسی طرح بعض اوقات سرمایہ کار کی کوتاہی کے سبب بھی اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ عام طور پر کوئی بھی کرپٹو ایکس چینج اپنے کرپٹو اکاؤنٹ ہولڈر کوایک پاس ورڈ جاری کرتی ہے۔ کرپٹوکرنسی کی دُنیا میں جاری کردہ پاس ورڈ کو Private Key کہا جاتا ہے۔
سرمایہ کار/ اکاؤنٹ ہولڈر کی لاپروائی، غلطی یا بے وقوفی کی وجہ سے یہ پرائیویٹ کی کسی غلط شخص کے ہاتھ لگ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اکاؤنٹ ہولڈر اپنے سرمائے سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے Crypto Wallet کا پاس وَرڈ بھی بُھول جاتےہیں، جس کی وجہ سے بعد میں اُنہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنا پاس وَرڈ کسی کاغذ پر لکھ کر محفوظ کر لیا جائے۔
7۔ مارکیٹ ریسرچ: علم چاہے کسی بھی چیز کا ہو، انسان کو فائدہ ضرور پہنچاتا ہے۔ اگر آپ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری میں دل چسپی رکھتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ ورچوئل کرنسی کے بارے میں آپ کی معلومات جتنی زیادہ ہوں گی، اتنا ہی آپ کو فائدہ ہوگا، کیوں کہ زیادہ معلومات آپ کو غلط فیصلوں سے باز رکھیں گی اور یوں آپ کی کرپٹو میں سرمایہ کاری نہ صرف محفوظ بلکہ منافع بخش بھی ثابت ہوگی۔
اِس وقت دُنیا میں لگ بھگ 23 ہزار مختلف اقسام کی کرپٹوکرنسیز زیرِ گردش ہیں۔ آپ کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے قبل، کم ازکم دس سے پندرہ ایسی کرنسیز سے متعلق ضرور معلومات حاصل کریں کہ جو اِس وقت ٹاپ پر ہیں۔
8۔ تنوّع: انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’اپنے تمام انڈے کسی ایک ٹوکری میں مت رکھیں۔‘‘ جب کہ ورچوئل کرنسی کی دُنیا میں اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ اپنا تمام سرمایہ کسی ایک کرپٹوکرنسی میں مت لگائیں۔
کوشش کریں کہ مختلف کرنسیز میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ اگر ایک کرنسی پر زوال آئے، تو دوسری کی بڑھتی قیمت سے فائدہ اُٹھا لیا جائے۔ تاہم، اس Diversification یا تنوّع میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹا سرمایہ کار اِس سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتا، کیوں کہ اُس کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ مختلف اقسام کی کرنسیز میں بہ یک وقت سرمایہ کاری کر سکے، تو اسِ سے صرف بڑے سرمایہ کار ہی فائد ہ اُٹھا سکتے ہیں۔
9۔ سیالیت: ’’سیالیت‘‘ سے مُراد یہ ہے کہ کوئی اثاثہ کتنی جلدی نقدی میں تبدیل ہوجاتا ہےاور یہ اُس اثاثے کی خاصیت ہوتی ہے۔ مثلاً پانچ ہزار کا نوٹ جلد کیش ہوجائے گا، جب کہ اُس کے مقابلے میں اگرکوئی کار یا مکان فروخت کرکے کیش حاصل کرنا چاہے، تو اس عمل میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔
اس لیے اگر آپ کسی کرپٹوکرنسی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، تو یہ ضرور دیکھ لیں کہ اُس کرنسی کی سیالیت کتنی ہے؟ یہ کرنسی کتنی آسانی سے فروخت ہوجاتی ہے؟ کرپٹو مارکیٹ میں اُس کرنسی کی ڈیمانڈ کیا ہے؟
بالفرض آپ نے ایسی کرنسی خرید لی، جس کی Resale ویلیو بہت کم ہے، تو اُسے فروخت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ Pandana ایسی ہی ایک کرپٹوکرنسی ہے، جس کی ری سیل ویلیو بہت کم ہے، کیوں کہ اس کی مانگ برائے نام ہے۔
10۔ فراڈ: دیگر مارکیٹس کی طرح کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں بھی فراڈ کے واقعات عام ہیں۔ لہٰذا، کسی بھی کرپٹو ایکس چینج سے لین دین کرنے سے قبل اُس کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کریں۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ کرپٹو میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں، اُن سے ہوش یار رہیں۔ اگر کوئی آپ کو کہے کہ ہمارے کرپٹو بزنس میں سرمایہ کاری کریں، تو ہرگز جلد بازی مت کریں۔ بالخصوص گم نام لوگوں کے کرپٹو بزنس میں کبھی بھی سرمایہ مت لگائیں، چاہے وہ کتنا ہی منافع دینے کا دعویٰ کریں۔
11۔ فیس: تقریباً سبھی کرپٹوایکس چینجز کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت کے لیے باقاعدہ فیس چارج کرتے ہیں۔ اسی لیے بہتر ہوگا کہ آپ جس کرپٹو ایکس چینج سے لین دین کرنے جارہے ہیں، پہلے اُس کی فیس سے متعلق معلومات ضرور حاصل کرلیں۔
ایک بات دھیان میں رہے کہ جب کرپٹو کرنسی کے نیٹ ورک (بلاک چَین) پر رش بڑھ جاتا ہے، تو اُیسی صورت میں اگر آپ اپنی ٹرانزیکشن جلدی کروانا چاہتے ہیں، تو آپ کو زیادہ فیس ادا کرنی پڑے گی۔ اس فیس کو ’’نیٹ ورک فیس‘‘ یا ’’مائنرفیس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح اگر آپ Ethereum نامی کرپٹوکرنسی کی بلاک چَین پرٹرانزیکشن کرتےہیں، تو اس صورت میں آپ کو Gas Fee کے نام سے رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
12۔ بدلتی ٹیکنالوجی: کرپٹوکرنسی کا پورا نظام ہی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے اور جو لوگ ٹیکنالوجی سے واقفیت (خواہ تھوڑی ہی سہی) رکھتے ہیں، تو اُن کے لیے کرپٹو کرنسی کی دُنیا میں Survive کرنا بڑا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت کے سبب نہ صرف آپ آزادانہ طور پر لین دین کرسکتے ہیں بلکہ کرپٹوکرنسی کے تیکنیکی مسائل بھی سمجھ سکتے ہیں۔
آپ کو اپنے آس پاس ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے کہ جو اے ٹی ایم کارڈ استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ٹرانزیکشن کے لیے استعمال ہونےوالی ایپس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ سو، آپ جس کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اگر ممکن ہو، تو اس کرنسی کی بنیادی تیکنیکی معلومات ضرور حاصل کریں۔
13۔ مارکیٹ سے نکلنے کا پلان: جس طرح کرپٹو مارکیٹ میں داخل ہونے کا باقاعدہ پلان ہو تا ہے، بالکل اُسی طرح آ پ کے پاس کرپٹو مارکیٹ سے نکلنے کا بھی منصوبہ ہونا چاہیے۔ بہت سے لوگ غلط وقت پر مارکیٹ سے نکل جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اُنہیں نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔
اِسی طرح بہت سے لوگ بہت دیر بعد مارکیٹ سے نکلتے ہیں اور اُن کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔ کرپٹو مارکیٹ سے کب نکلنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب خاصا تفصیلی ہے۔ تاہم، مختصراً عرض ہے کہ جو لوگ کرپٹو کرنسی سے متعلق خبریں مسلسل پڑھتے رہتے ہیں، تو اُنہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب مارکیٹ سے نکلنے کا وقت آچُکا ہے۔
14۔ ٹیکس: جن ممالک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اُن ممالک میں کرپٹو کرنسی پر حاصل ہونے والے منافعے پر ٹیکس بھی عاید ہوتا ہے اور ہر کرپٹو کرنسی کے اعتبار سے ٹیکس کی شرح مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا، آپ جس مُلک میں کرپٹو میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، اس مُلک کے ٹیکس نظام کو لازماً مدِنظر رکھیں۔