• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگ عزت دینے میں بہت فضول خرچ ہوتے ہیں۔ انھیں دراصل عزت ملی بہت ہوتی ہے، چنانچہ وہ اسے خرچ بھی بے دریغ کرتے ہیں حالانکہ عزت ملنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں عزت سے الرجی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کئی لوگوں کو پھولوں سے الرجی ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر انھیں کوئی محبت سے پھول پیش کر دے تو وہ چھینک چھینک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ ساری عمر خوشبو کیلئے ترستے رہ جاتے ہیں۔ عزت سے الرجک لوگوں کی اگر کوئی عزت کرے تو وہ اسے عزت دینے سے روک تو نہیں سکتے ، چنانچہ اپنی شخصیت کے ایسے پہلو سامنے لانے لگتے ہیں کہ عزت دینے والا سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ یار یہ میں کس کی عزت کرتا رہا ہوں ؟عزت ہضم نہ کر سکنے والوں کی ایک قسم اور بھی ہے؛ یہ کم ظرف لوگ ہیں ۔ انھیں جب ان کے حصے سے زیادہ عزت ملتی ہے تو انھیں ” اپھارہ‘‘ہو جاتا ہے اور یوں عزت کی بد ہضمی کی وجہ سے ان کا پیٹ غبارہ بننے لگتا ہے، چنانچہ وہ عزت دینے والے کی عزت گھٹانے میں لگ جاتے ہیں۔ جو لوگ عزت کے مستحق نہیں ہوتے اور آپ ان کی عزت کرتے ہیں تو ان میںسے کئی آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ اگر آپ بے وقوف ہیں اور ان سازشوں کے سد باب کیلئے ان کے مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ جب آپ کسی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ شاید وہ آپ کے تھلے لگ گیا ہے، چنانچہ وہ اپنی آستین سے طعنوں اور کمینگیوں کا خنجر نکال کر آپ پر حملہ آور ہو جاتا ہے، لہٰذا کسی کیلئے آسانیاں پیدا کرنے سے پہلے اس کی سوچ کا الٹراساؤنڈ ضرور کر ا لینا چاہئے ۔یہ ساری باتیں میں یوں کر رہا ہوں کہ میری ساری زندگی رنگ برنگے لوگوں کے درمیان گزری ہے۔ میں نے ہر طرح کی زندگی گزاری ہے۔ لیکچرر سے لے کر سفیر پاکستان ۔اور سفیر پاکستان سے متعدد علمی وادبی اور ثقافتی اداروں کی سربراہی تک کا سفر بھی میں نے طے کیا ہے۔ بطور ادیب اور بطور کالم نگار مجھے کروڑوں لوگوں کی بے پناہ محبت حاصل رہی ہے، چھ بہنوں کے اگر دو بھائی ہوں اور اللہ کی رضا کے تحت ان دو میں سے ایک ہی رہ جائے تو بہنوں کی محبت کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ والد اور والدہ کی بے پناہ محبت کا تو ذکر ہی کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی محبتیں ملی ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک محبت بھی ایسی نہیں یا میری کوئی ایک بھی خوبی ایسی نہیں جس میں میرا کوئی ذاتی کمال ہو۔ مجھے میرے دوست آگے لے کر آئے ، وہ میرے راستے کے کانٹے چنتے رہے، ان میں سے جو فوت ہو گئے ہیں، میں ان کی قبروں پر پھول چڑھانے جاتا ہوں اور جو زندہ ہیں، میں ہر لمحہ ان کی خوشبوؤں کے حصار میں رہتا ہوں۔ زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جن کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ہوتے ہیں، چنانچہ جب وہ کسی اعلیٰ منصب پر پہنچتے ہیں تو ان میں سے کچھ کم ظرف ہر نئے آنے والے کے راستے میں کانٹے بچھا کر اپنے ماضی کا انتقام لیتے ہیں اور دوسری طرح کے لوگ پسے ہوئے طبقوں کیلئے اسی طرح آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جیسے ان کیلئے دوسروں نے آسانیاں پیدا کی تھیں۔یہ وہ پس منظر ہے جس نے زندگی میں میرے رویے متعین کیے ہیں۔ میرے پاس ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، دوست بھی دشمن بھی ، منافق بھی ، بہت کم عرصے میں ان کی سوچ اور عمل کے مختلف پہلو مجھ پر عیاں ہو جاتے ہیں، مگر میں دوستوں کے علاوہ دشمنوں ، حاسدوں، منافقوں اور اس نوع کے دوسرے لوگوں کے ساتھ یہ سوچ کر پورے خلوص سے ملتا ہوں کہ کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ میں انھی لوگوں میں سے ہوں جو عزت دینے میں بہت فضول خرچ واقع ہوئے ہوتے ہیں بلکہ جب کبھی کوئی دوست چہرے سے نقاب اتار کر کھلم کھلا دشمنی پر اتر آتا ہے تو بھی میں اس کے مقابل نہیں آتا۔ بس اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کی منفی سوچ نے اسے آج تک کیا دیا ہے اور میں اگرمثبت نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں تو کیا زندگی میں مجھے اس سے کوئی نقصان پہنچا ہے؟ جواب یہی ملتا ہے کہ منفی سوچ آپ کو مسلسل پیچھے لے جائیگی اور اگر آپ کا کوئی دوست ہے بھی تو وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا جبکہ مثبت سوچ کے نتائج بھی مثبت ہی برآمد ہوں گے!مجھے زندگی میں جن بے شمار کرداروں سے ملاقات کا موقع ملا ہے، ان میں میرا ایم اے او کالج کا ایک کولیگ تھا جس میں بہت خوبیاں تھیں ۔ وہ ذہین تھا ، خوش کلام تھا، شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتا تھا، اچھی نثر لکھنے کی بھی اس میں بھر پور صلاحیت تھی۔ وہ اپنی عملی زندگی کے آغاز ہی میں زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرنا چاہتا تھا جو ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کی ذہنی پریشانیوں نے اسے زندگی میں اس مقام پر فائز نہ ہونے دیا جس مقام کا وہ مستحق تھا۔ وہ ایک روز مجھے ملنے آیا تو شدید ڈپریشن کا شکار دکھائی دیتا تھا۔ میں چونکہ خود بھی ڈپریشن کا ہلکا پھلکا مریض ہوں، چنانچہ میں اسکی کیفیت سمجھ گیا۔ میں نے اس روز اس کی تحلیل نفسی کی ٹھانی اور بالآخر اسکی رپورٹ اسے پیش کرتے ہوئے کہا ” تمہارے ذہن پر ایک خلش کا بہت زیادہ بوجھ ہے جو تمہاری زندگی میں زہر گھول رہی ہے یا یہ خلش ذہن سے نکال دو یا اس خلش کے ساتھ زندہ رہنا سیکھو ۔“ اس نے پوچھا’’ یہ خلش کیا ہو سکتی ہے؟“ میں نے کہا ’’میں نے اس ضمن میں اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا تم اگر جانتے ہو تو اس کا مداوا وہی ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے!“میں نہیں جانتا میرا یہ دوست آج کل کہاں ہے۔ وہ زندگی میں جو چاہتا تھا، وہ اسے مل گیا یا اسکی ذہنی الجھن نے اس کے عمل کی ڈوریں مزید الجھا دی ہیں؟ خدا کرے اس نے منزل تک پہنچنے کیلئے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہو۔

تازہ ترین