• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے آخری پہر میں، جب خواب اور حقیقت کی سرحد بارش کے بعد کی مٹی کی طرح نرم ہو جاتی ہے، میں نے اپنے آپ کو ایک عجیب دروازے کے سامنے پایا۔ دروازہ لکڑی کا تھا، مگر اس پر کسی نے وقت کا چہرہ تراشا ہوا تھا۔آدھا روشن، آدھا بجھا ہوا۔ دروازے کے اوپر صرف ایک جملہ لکھا تھا’’خوش آمدید... بائیسویں صدی میں‘‘۔مجھے لگا کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر دھکیل دیا ہو۔ میں ایک لمحے میں اُس زمانے میں جا گرا جو ابھی دنیا کی آنکھ میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ فضا میں خاموشی تھی، مگر وہ معمولی خاموشی نہیں۔وہ خاموشی جو کسی بڑے حادثے سے ذرا پہلے آتی ہے، جب ہوا بھی سانس روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

میں پاکستان کے آسمان پر تیر رہا تھا۔ نیچے دھندلی خانہ جنگیوں جیسی بستیاں، ہر طرف بھاری دھواں اور لکیر در لکیر سڑکیں۔ پھر آہستہ سے میرا جسم زمین کی طرف کھنچنے لگا۔ میں لاہور کی زمین کو چھوتے ہی چونک گیا۔

یہ لاہور نہیں تھا... کم از کم وہ نہیں جو میں جانتا تھا۔یہ ایک ایسا شہر تھا جو انسانوں کی دھڑکنوں کے بوجھ سے تھک چکا تھا۔چوکوں میں انسان ریلا بن کر بہہ رہے تھے۔ گلیاں ندیوں کی مانند تھیں، جن میں پانی نہیں بلکہ لوگ بہہ رہے تھے۔ فضا دھویں، شور اور تھکن سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے لگا شہر زندہ ہے، اور سانس لیتے ہوئے کراہ رہا ہے۔ میں نے ایک دیوار پر لکھے الفاظ پڑھے’آبادی دو ارب‘میری آنکھوں میں ایک کانٹا سا چبھ گیا۔اسی لمحے مجھے زمین کے اندر سے ایک دھیمی گرج سنائی دی۔ جیسے دھرتی شکایت کر رہی ہو۔

’’میں بوڑھی ہو گئی ہوں... میرے کندھے تھک گئے ہیں‘‘۔

میں سڑک پر چلنے لگا۔ ایک پمپنگ اسٹیشن کے سامنے لمبی قطار تھی۔ عورتیں مٹکے تھامے کھڑی تھیں۔ ایک بچہ پوچھ رہا تھاامی، آج پانی مل جائے گا؟عورت نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا کر کہاپانی دعا سے نہیں ملتا... قسمت سے ملتا ہے۔قطار کے آخری سرے پر ایک لکھی ہوئی تختی لگی تھی’’زیرِ زمین پانی 3ہزارفٹ سے بھی نیچے‘‘میں آگے بڑھا تو ایک راشن سینٹر کے باہر ہجوم تھا۔بوڑھی عورت نے ہاتھ میں تھیلا پکڑا ہوا تھا، اور کہتی جا رہی تھی’ہم نے کھیت نہیں، قطاریں اگانی سیکھ لی ہیں....‘

میرے دل میں عجیب سا سناٹا اتر گیا۔آگے ایک اسپتال تھا۔ دروازے پر چاک سے لکھا ہوا تھا’ایک بستر... دو مریض‘۔اندر نرسیں بھاگ رہی تھیں، ڈاکٹر شور میں ڈوبے ہوئے تھے، اور وارڈ کے باہر لوگ انتظار کر رہے تھے کہ کب کوئی مریض دم توڑے،کہ جگہ خالی ہو۔میں اسپتال سے باہر نکلا تو سامنے نوجوانوں کا لاکھوں کا ہجوم تھا۔ وہ سب جیسے کسی نامعلوم مستقبل کے دروازے پر دستک دے رہے تھے، مگر دروازہ کھلتا نہیں تھا۔ایک لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ہمارا مستقبل... ہمارے قد سے بڑا ہو گیا ہے‘‘۔اس کی آواز میں امید نہیں، حیرت بھی نہیں۔بس تھکن تھی۔

میں وہاں سے نکل کر دیہات کی طرف چلا گیا۔ وہی کھیت جو کبھی نسلوں کی پرورش کرتے تھے، اب خود بھوک کے مارے سوکھے پڑے تھے۔

زمین کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے، جیسے پانی کی تلاش میں فریاد کر رہے ہوں۔ایک کسان زمین کو چھوتے ہوئے کہہ رہا تھا’’ہم مٹی سے دعا مانگتے ہیں... مگر اب مٹی بھی ہاتھ جوڑ کر کہتی ہے’بس کرو... میں تھک گئی ہوں۔‘میرے دل پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔

میں واپس شہر کی طرف دوڑا، شاید کسی نشانی کی تلاش میں جو مجھے امید کا ایک ٹکڑا دے سکے۔ مگر شہر کی فضا میں صرف انسانی سانسوں کی گرد تھی۔ملک کے اوپر پھیلتی ہوئی ایک آہ، جو دھویں میں بدل چکی تھی۔پھر اچانک میرے پیروں کے نیچے زمین لرزی۔

سڑک میں ایک دراڑ ابھری۔دھرتی کی آواز دوبارہ گونجی’’ہمیشہ مجھ سے لیتے رہو گے؟کچھ واپس بھی کرو گے؟‘‘آواز میں غصہ نہیں تھا۔انتہائی تھکاوٹ تھی۔اور پھر...روشنی کی ایک لکیر آسمان سے اتری۔جیسے کسی نے خواب کا دروازہ دوبارہ کھول دیا ہو۔

میں نے خود کو واپس اپنے کمرے میں پایا۔ دیوار پر وہی کتاب رکھی تھی جس میں 1947 سے آج تک کی آبادی کا گراف بنا ہوا تھا۔تین کروڑ سے چوبیس کروڑ تک... آٹھ گنا۔اور اگر یہی رفتار چلتی رہی تو اگلی صدی تک آبادی دو ارب کے قریب پہنچ سکتی ہے۔مجھے احساس ہوا کہ میرا خواب صرف خواب نہیں تھا۔زمین کی ایک وارننگ تھی۔ایک چیخ، جو صرف میں نے نہیں... شاید پوری دھرتی نے سنی تھی۔

میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی۔باہر کی ہوا خاموش تھی۔وہی خاموشی جو بڑے حادثوں سے پہلےہوتی ہے۔دل میں ایک سوال اترا’’کیا ہم زمین سے سب کچھ لیتے رہیں گے۔جب تک زمین ہمارے ہاتھوں سے پھسل نہ جائے؟‘‘

تازہ ترین