مالی سال 24-2023ءکےسروے کا ڈیٹا ادارہ شماریات نے مرتب کر لیا ہے جسکی بنیاد پر قومی اور صوبائی سطح پر غربت کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کے اعداد و شمار نکالنے کیلئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے ۔ یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی پلاننگ کمیشن کے ادارہ ہائینڈ کے ساتھ منسلک سابقہ عہد یدار ڈاکٹر جی ایم عارف کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں،ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یونیسیف کے ساتھ منسلک ماہرین کو بھی شامل کیا گیاہے۔ غربت کے سرکاری اعداد و شمار نکالنے کی ذمہ داری وزارت منصوبہ بندی کی ہے۔ ہمارے ملک میں پالیسی سازی کا کام بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سپرد کرنے کا تاثر موجود ہے اس اعلیٰ سطحی کمیٹی میںعالمی مالیالی اداروں کے ماہرین کو شامل کرنے سے اس تاثر کو مزید پذیرائی حاصل ہوگی مختلف حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروںکے ہر یالیسی سازی میں بڑھتے ہوئے عمل دخل کو مزید تقویت دی ہے چونکہ ملک کے اندر معاشی امور کے ماہرین کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے اس معاملے پر حالیہ دنوں میں وزارت منصوبہ بندی کے وزیر جناب احسن اقبال سے ماہانہ پریس بریفنگ کے دوران استفسار کیا گیا تو انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے حکام کی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت غربت کے اعداد و شمار کے مسئلہ پر شفافیت پر یقین رکھتی ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ کیساتھ کسی بھی نوعیت کا تنازع نہیں چاہتی اس لئے عالمی مالیاتی اداروں کو اعلیٰ سطحی کمیٹی میں شامل کیاگیا ہے تا کہ باہمی مشاورت کے ساتھ غربت اور تفاوت کے اعداد وشمار پر اتفاق رائے کے ساتھ فیصلہ ہو۔ وزیر منصوبہ بندی کی اس دلیل کے باوجود موجودہ حکومت نے ماضی میں اختیار کیے گئے عمل سے ہٹ کر کام کیا ہے ماضی میں سر کاری کمیٹی ادارہ شماریات کےHIES سروے سے حاصل شدہ ڈیٹا کی بنیاد پرغربت کے اعداد و شمار نکالتی تھی جسکےبعد مالیاتی اداروں بالخصوص عالمی بینکValidationسے ان اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کرواکرجاری کیا جاتا ۔موجودہ حکومت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں عالمی بینک کوان اعداد وشمار میںکوئی فرق نظر نہ آجائے لہٰذاعالمی اداروں کو پہلے ہی سرکاری کمیٹی کے اندر شامل کر دیا گیاہے۔ملکی معاشی ماہرین کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی میں کچھ شخصیات ایسی بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی غربت جیسے ایشو پر کوئی کام نہیں کیا۔
واضح رہے کہ چند ہفتے قبل عالمی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں غربت کے تخمینہ جاتی اعداد و شمار جاری کیے گئے اس رپورٹ میں عالمی بینک نےغربت کے حوالے سے کمی دکھائی ہے یہ اعدادو شمارسر کاری طریقہ کار کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے لیکن اس سے قبل عالمی بینک نے4.2 ڈالر کی آمدن فی کس یومیہ کے حساب سےاعدادو شمار جاری کئےتھے۔ جسکے مطابق44.7 فیصد سے زائد افراد پاکستان کے اندرخط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب عالمی بینک نے سرکاری طریقہ کار کے مطابق غربت کاتخمینہ لگایا تو 21.9 فیصد لوگ 19-2018 کے ڈیٹا کے مطابق Cost of Basic Needs کے حوالے سے خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ملک کی موجودہ آبادی 24 کروڑ سےزائد ہے اگر 4ڈالر سے زائد آمدن فی کس یومیہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو دس کروڑ 70لاکھ افراد غربت کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن اگر سر کاری طریقہ کار کوسامنےرکھاجائے تو پھر چار کروڑ سے زائد لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں غربت کےاعدادوشمار ہمیشہ حساس نوعیت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن صحیح اعدادو شمار کے بغیر موثر پالیسی سازی کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
حالیہ چند سال کے دوران عوام نے دو دھاری تلوار کا سامنا کیا جس میں شرح نمو میں کمی اور مہنگائی میںخاطر خواہ اضافہ سامنے آیا جس کے نتیجے میں غربت بڑھی۔ اب یہ کمیٹی اپنےاعداد و شمار سامنے لیکر آئے تاکہ عوام تک تصدیق شدہ حقائق پہنچ سکیں دوسری طرف وفاقی ادارہ شماریات نےلیبر فورس سروےکافی برسوں (LFS) کے بعد اکٹھا کر لیا اور جلد ہی جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا جسکےمطابق کچھ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ بے روز گاری کی شرح میں کچھ اضافہ سامنےآنے کے امکانات موجود ہیں ۔
غربت اور بے روزگاری کے اعدادو شمارآنے کے بعد پالیسی ساز معاشی ماہرین کو ان سلگتے ہوئے مسائل پر عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی پر قابو پانے کیلئےکچھ اقدامات تجویز کرنا پڑیں گے اور آئی ایم ایف کو بھی اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ چند سال کے دوران معاشی مشکلات نے عوام کی زندگی دوبھر کردی اب عوام کو خوشحالی فراہم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ،شرح نمو میں کمی اورمہنگائی میں بے تحاشا اضافے نے غریب اور بے روزگار سے روٹی کا نوالہ چھین لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ نے تنخواہ دار طبقہ کی کمر توڑ دی ہے۔ اگلے مالی سال کا بجٹ بنانے کی تیاری شروع ہونے والی ہے ۔اب وقت آچکا ہےکہ حکومت کو آئی ایم ایف کو اس بات پر لانا پڑے گا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ خاطر خواہ کم کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ سپر ٹیکس کو بھی بتدریج ختم کیا جائے تاکہ ملک میںٹیکس ادا کرنے والے سیکٹرز کیلئےمنافع کمانے کے مواقع موجود رہیں۔
موجودہ حکومت نے کا میابی کے ساتھ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدارآمد کیا ہے لیکن عوام کو غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کےشکنجے سے نکالنا بھی اسکی ذمہ داری ہے جو معاشی اصلاحات پرتسلسل کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے علاوہ ممکن نہیں۔