• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے بڑے نقشے پر اگر کوئی آنکھ ٹھہر کر افغانستان کو دیکھے تو وہ اسے براعظمِ ایشیا کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل نہیں پائے گی، بلکہ ایک ایسا بھولا ہوا حجرہ دکھائی دے گا خشکی کے دل میں رکھا ہوا، ہوا سے محروم، جس کی کھڑکیوں پر ریت کے ذرے پڑے رہتے ہیں اور جس کے دروازے بارش کے وعدے سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔یہ سرزمین ایک ایسا عضو ہے جسے اگر جسم سے جدا بھی کر دیا جائے تو بدن کی سانس پر کوئی خاص بوجھ نہیں پڑتا۔ہاں... اس کی اپنی خواہشیں ضرور تڑپتی رہتی ہیں۔افغانستان کے خوابوں میں ایک سمندر ہے ایک ایسا نیلگوں افق جو اس نے کبھی دیکھا نہیں، مگر صدیوں سے چاہا ضرور ہے۔

خواہش اور جغرافیہ مگرکبھی ایک دوسرے کے ہمراز نہیں ہوتے۔نقشے کی چھ حدیں اس کے گرد یوں کھڑی ہیں جیسے چھ درخت جن کی ہر شاخ کہیں نہ کہیں رک جاتی ہے۔شمال کے تین درخت تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اپنے اپنے پھولوں، گیسوں اور پیداوار کے بوجھ میں اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ افغانستان کی دستک انہیں بس ایک ہلکی سی ہوا کے جھونکے جیسی محسوس ہوتی ہے۔ان سے کاروبار کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بھرے ہوئے تالاب سے پانی مانگنا۔

مشرق کی طرف چین کا ایک باریک سا دھاگا ہے اتنا نازک کہ اس سے صرف نقشہ مضبوط ہوتا ہے، زندگی نہیں۔مغرب میں ایران ہے جو خود پابندیوں کے صحرا میں بھٹکتا ہوا قافلہ ہے؛ جس کے راستے کبھی کھلتے ہیں، کبھی بند ہو جاتے ہیں، جیسے کسی بھاری دل کا دروازہ جو ہر کچھ عرصے بعد پھر سے شک میں مبتلا ہو جائے۔اور جنوب مشرق میں پاکستان۔وہ واحد ہمسایہ جس تک پہنچ کر افغانستان کی رگوں میں تجارت کی ہلکی سی حرارت دوڑتی ہے۔جیسے کوئی رکی ہوئی نبض اچانک متوازن ہو جائے۔جیسے کوئی قیدی باریک روشنی کی لکیر کو کھڑکی سمجھ لے۔واہگہ: وہ لکیر جس پر افغانستان کی سانس چلتی ہے۔بھارت سے جڑنے کی خواہش جب افغانستان کے سینے میں تیز ہوتی ہے، تو وہ واہگہ کی طرف دیکھتا ہے۔وہ باریک سا دروازہ جہاں لاہور کی دھرتی اور کابل کی تمنا ایک ہی مٹی پر قدم رکھتے ہیں۔افغانستان کے پھل، اس کے انگور، اس کے سیب یہ سارے اسی راستے کی ہوا میں تازہ رہتے ہیں۔یہ راستہ صرف تجارت نہیں، افغانستان کے جسم میں بکھری ہوئی امید کی وہ شہ رگ ہے جسے کاٹ دیا جائے تو باقی راستوں کی ریت اسے خشک کر دے۔

ایران کی بندرگاہ چاہ بہار بظاہر ایک افسانوی ساحل ہے۔مگر اس افسانے کا ہر صفحہ امریکی پابندیوں کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔افغانستان کا مال اس بندرگاہ تک پہنچ بھی جائے تو واپسی میں وہی دیر، وہی تھکن، وہی مہینوں پر پھیلا ہوا سفر۔جیسے کسی جاڑے کی رات میں مسافر کا سانس دھیرے دھیرے جم جائے۔پھل اور سبزیاں وقت سے پہلے مرنے والے بچوں کی طرح ہیں۔انہیں لمبے راستے نہیں چاہئیں۔انہیں جلدی پہنچنے والا ہاتھ چاہئے ۔اور وہ ہاتھ پاکستان کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

ہوا کے راستے؟ کہانیوں کے پرندے سستےنہیں اڑتے۔فضا میں اڑنے والے جہازوں کے پنکھ افغانستان کی معیشت کے بس کی بات نہیں۔وہ ہر اڑان پر اتنی قیمت مانگتے ہیں کہ تجارت اپنی سانس ہی بھول جائے۔یہ راستہ محض رومان ہے، حقیقت نہیں۔اصل سچ: جغرافیہ ضد نہیں مانتا۔دنیا کا ہر راستہ یا تو کشادہ ہوتا ہے یا کٹھور۔افغانستان کے گرد زیادہ راستے نہیں زیادہ دھوکے ہیں۔اور ان دھوکوں میں سب سے بڑا دھوکا وہ ہے جو طالبان اپنے عوام کو دیتے ہیں ۔’متبادل راستوں کا سراب‘۔ایسے وعدے جو دشت کی ریت پر لکھے جائیں اور ہوا پہلی لہر میں مٹا دے۔پاکستان سے ہٹ کر افغانستان کا پورا جغرافیہ ایک بڑا تنہائی کا خیمہ ہے۔اور پاکستان کے پاس راستے ہی راستے ہیں ۔گوادر کی گہری سانس، کراچی کا شور،خنجراب کی برف ،رایکوٹ کی چٹانیں اور گلگت کی ہوا۔افغانستان چاہے تو انہی راستوں سے سمندر تک جا سکتا ہے۔نہ چاہے تو ریت میں اپنی تقدیر ڈھونڈتا رہے گاکچھ حقیقتیں ندیوں کی طرح ہوتی ہیں موڑی نہیں جا سکتیں۔افغانستان کے خواب سچے ہو سکتے ہیں۔مگر راستے صرف وہی ہوتے ہیں جو زمین دیتی ہے۔اور زمین نے افغانستان کو کوئی ایسا دروازہ نہیں دیا جس سے وہ پاکستان کے بغیر آگے بڑھ سکے۔یہ جغرافیہ کا فیصلہ ہے۔اور جغرافیہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔

افغانستان نے ہمیں بہت دکھ دئیے ہیں۔جنرل ضیاء، جو چند ماہ بعد الیکشن کرا کر تاریخ کی دھول میں گم ہوسکتا تھا، کابل کی آگ نے اسے ایسا سہارا دیا کہ وہ برسوں تک ہماری سیاست کی سانس روک کر بیٹھا رہا۔ افغانستان میں روس نواز حکومت کے خلاف چند لوگوں کی بغاوت نے واشنگٹن کو روس سے پنجہ آزمائی کا موقع دیا، اور جب امریکہ کو اس جنگ کیلئے ایک بروکر درکار ہوا تو ضیاءالحق اس کا چنا ہوا مہرہ بن کر ابھرا۔یوں اس کی ڈھلتی ہوئی شام ایک خوفناک طلوع میں بدل گئی۔ پھر تاریخ نے یہ کھیل پرویز مشرف کے ساتھ دہرایاابتدا میں امریکہ اور یورپ نے اس کے مارشل لا کو سرد نگاہوں سے دیکھا، مگر جیسے ہی طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی، عالمی طاقتوں کو اچانک اس آمر کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور وہ لمحے میں ان کا اہم اتحادی ٹھہر گیا۔ یوں افغان فیصلوں نے ایک بار پھر ہماری قسمت کا رخ بدل دیا۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانوں نے صرف اپنی دھرتی نہیں جلائی، اپنی بربادی کا ملبہ بھی ہماری دہلیز پر دھکیل دیاوہاں جلنے والی آگ نے ان کے گھر بھی کھائے اور ہماری ہوا بھی داغدار کر دی۔ ان کی جنگ کی دھند نے نہ ان کے راستے کو روشن چھوڑا نہ ہمارے مستقبل کی شاہراہ کو۔

تازہ ترین