• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیوار پہ دستک 

پتنگ بازی محض ایک کھیل نہیں، یہ برصغیر اور خصوصاً پنجاب کی صدیوں پرانی تہذیب، رنگ، خوشی اور اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے۔ پتنگ کی تھپتھپاہٹ، ڈور کی کھنک اور چھتوں پر گونجتی آوازیں اس خطے کے لوگوں کے دلوں میں اتری ہوئی ہیں۔ اس روایت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اس کی تاریخ چند دہائیوں یا صدیوں پر نہیں بلکہ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پتنگ کا آغاز چین میں دو ہزار سے اڑھائی ہزار برس پہلے ہوا، جب بانس اور ریشم سے بنی ابتدائی پتنگیں موسم، فاصلے اور مواصلات کے تجربات کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ اس وقت انہیں کھیل نہیں، ایک سائنسی اور فوجی ایجاد سمجھا جاتا تھا۔ سلک روٹ کے ذریعے یہ روایت وسطی ایشیا اور ایران پہنچی۔ ایران میں بادشاہوں اور عام لوگوں میں پتنگ بازی مقبول تھی، جہاں اسے خوشی، تفریح اور بعض اوقات مذہبی تقریبات کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ فارسی خطوں سے گزرتی ہوئی یہ روایت غزنویوں، مغلوں اور ترکوں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوئی اور یوں پاکستان و بھارت کے شہری مراکز، خصوصاً لاہور، دہلی، لکھنؤ اور حیدرآباد میں یہ اس قدر مقبول ہوئی کہ تہذیبی شناخت بن گئی۔

لاہور کو پتنگ بازی کا دل اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں پتنگ بازی نے صرف آسمان نہیں بدلے بلکہ زندگی کے رنگوں میں بھی اضافہ کیا۔ پنجاب میں بسنت کا تہوار موسمِ بہار کی آمد کا اعلان تھا، جو صدیوں سے ثقافتی اور روحانی معنویت رکھتا ہے۔ پیلا رنگ، سرسوں کی خوشبو، بدلتا موسم، آسمانوں پر بکھرتی ہوئی روشنیاں اور گھروں میںگونجتی ہنسی۔بسنت صرف تہوار نہیں بلکہ بہار کی اجتماعی سانس تھی۔ اس سانس میں پتنگ بازی نے وہ جذبہ شامل کیا جو اسے ایک عام تہوار سے اٹھا کر ایک ثقافتی جشن کی سطح پر لے آیا۔ بسنت کا حقیقی حسن پتنگ بازی کے بغیر ادھورا تھا۔ پرانی لاہور کی فصیلوں، چھتوں، کیتھڈرل کے سائے، شاہی محلے کی گلیوں، انارکلی کے بازاروں اور اندرون شہر کے مکانات کی چھتوں سے اٹھتی ہوئی پتنگیں بسنت کے دن ایک شاعر کی غزل کی طرح پورے شہر کو رنگ دیتی تھیں۔ یہ تہوار کسی نسل، مذہب یا فرقے کی قید سے آزاد تھا۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی۔سب ہی اس تہوار کا حصہ بنتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بسنت لاہور کی پہچان بن گئی اور دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے۔

لیکن جب دھاتی اور کیمیکل ڈور نے اس کھیل کا رخ بدل دیا تو مسائل نے جنم لیا۔ اصل مسئلہ پتنگ نہیں تھی، بلکہ وہ خطرناک ڈور تھی جو جان لیوا ثابت ہونے لگی۔ پتنگ بازی کے خلاف نہیں بلکہ غیر ذمہ دار عناصر کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ مگر ماضی میں افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسئلے کی جڑ تک جانے کے بجائے پورے کھیل کو ہی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ چند غیر ذمہ دار افراد کی وجہ سے پوری ثقافت اور نسلوں کی خوشیاں بند کر دینا نہ دانشمندانہ تھا اور نہ ہی عملی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ثقافتی تقریبات کو بند نہیں کیا جاتا بلکہ ان خطرات کو روکا جاتا ہے جو حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن برسوں تک یہ روایت پنجاب میں خاموش رہی۔

اب حکومت پنجاب نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ایک ثقافتی احیا کی بنیاد بھی ہے۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ مسئلہ پتنگ نہیں، خطرناک ڈور تھی۔ اب حکومت نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کوئی بھی ایسا دھاگا، دھات، کیمیکل یا تار استعمال نہ کرے جو انسانوں، پرندوں یا جانوروں کیلئے نقصان دہ ہو۔ حکومت نے اس بات کی ذمہ داری بھی کمیونٹی پر ڈالی ہے کہ اگر اس تہوار کو زندہ کرنا ہے تو حفاظت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ اس بار حکومت نے وہ درست قدم اٹھایا ہے جو برسوں پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔یعنی اصل غلطی کا خاتمہ اور اصل خوشی کی بحالی۔

بسنت کی بحالی صرف پتنگ بازی کی اجازت نہیں بلکہ لاہور کی روح کی بحالی ہے۔ یہ شہر اپنی چھتوں سے پہچانا جاتا ہے، اور ان چھتوں کی زندگی پتنگوں سے وابستہ ہے۔ بسنت کے ساتھ پتنگ بازی وہ دھُن ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے۔ یہ تہوار ہمیشہ لوگوں کو ایک ساتھ لاتا رہا ہے، محبت بڑھاتا رہا ہے اور زندگی کو خوشگوار رنگ دیتا رہا ہے۔ بسنت صرف ایک تہوار نہیں بلکہ پنجاب کی شناخت اور اس کی اجتماعی روح ہے۔ آج جب حکومت نے ذمہ داری اور حفاظت کے ساتھ پتنگ بازی کی اجازت دی ہے تو یہ قدم نہ صرف ایک تہذیب کی طرف واپسی ہے بلکہ ایک ایسے تہوار کی محفوظ بحالی بھی ہے جس نے نسلوں کے دلوں کو جوڑا ہے۔

پتنگ بازی کی تاریخ، بسنت کی روایت اور پنجاب کے لوگوں کی جذباتی وابستگی ایک بار پھر زندہ ہو رہی ہے۔ آسمان دوبارہ رنگین ہوں گے، چھتوں پر موسیقی بجے گی، بو کاٹا کی آوازیں گونجیں گی اور لوگ ایک دوسرے کی خوشی کے شریک بنیں گے۔ یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتیں جب مسئلے کو ٹھیک زاویے سے دیکھیں، تو ان فیصلوں سے صرف تہوار نہیں، بلکہ دل بھی واپس زندگی محسوس کرتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اس روایت کی حفاظت کریں، ذمہ داری کے ساتھ اسے منائیں، اور یہ ثابت کریں کہ ثقافتیں پابندی سے نہیں، عقل، احتیاط اور اجتماعی احساس سے زندہ رہتی ہیں۔ پنجاب کے آسمان پر جب پہلی پتنگ پھڑپھڑائے گی تو یہ صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہوگا۔ یہ ایک پوری تاریخ، ایک تہذیب اور ایک زندہ روایت کا دوبارہ اڑان بھرتا ہوا خواب ہوگا۔

تازہ ترین