• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں سماجی سطح پر جتنے بھی مقابلے منعقد ہوتے ہیں ان میں سے اکثر خوشیاں بانٹنے والے یا انسانی فطرت کے مثبت جذبوں کے اظہار کرنیوالے ہوتے ہیں۔کھیلوں کے مقابلے ہوں یا امتحانات کے ، سائنسی ایجادات کے ہوں یا کسی مہم جوئی کے ، ان تمام مقابلوں میں جیتنے والے نہ صرف دوسروں کو خوشیوں کا احساس بخشتے ہیں بلکہ انہیں دیکھنے سننے اور پڑھنے والے بھی اسے ایک قابلِ فخر کارنامے کے طور پر لیتے ہیں لیکن ہم دنیا کی ان چند بدقسمت قوموں میں شامل ہیں جہاں ہمارے فخر و انبساط اور حزن و ملال کے پیمانے ہی جدا ہیں ـ ہمارے ہاں قومی اور سیاسی سطح پر جب اپنے کسی پسندیدہ لیڈر کی شان و شوکت بیان کی جاتی ہے تو وہ اسکے دکھوں اور تکلیفوں کا دردناک بیانیہ ہوتی ہے کہ اس نے کس قدر اور کیسے کیسے ظلم سہے ، کوڑے کھائے جیلیں کاٹیں اور ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں اور حد تو یہ ہے کہ تختہءِ دار پر چڑھا دیے گئے، ـ ہم نے بہت کم سنا ہے کہ ہمارے محبوب سیاسی لیڈروں نے دکھوں کے علاوہ قومی زندگی کے کس کس میدان میں کیا کیا کارنامے سرانجام دیے، ـ قومی سطح پر صحت ، تعلیم ،صنعت و حرفت اور دیگر میدانوں میں عوام کو کیا سہولتیں فراہم کیں ـ،یہی حال ہمارے اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مقابلے بازی کا ہے وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے حدود اربع ، سیاسی استحکام اور معاشی حیثیت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیے بغیر بھارت کے ساتھ دشمنی دراصل خود سے مخالفت تھی ،جس نے کشمیر لیتے لیتے ہمیں مشرقی پاکستان سے بھی محروم کر دیا اور اب یہ آگ پھیلتے پھیلتے بلوچستان اور کے پی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ ـ یہ وہ حقیقت ہے جسے کوئی ان پڑھ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اپنے دو تہائی بارڈرز پر ہر وقت حالتِ جنگ میں رہنے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنہیں ہمارے منفی طرزِ عمل نے اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ کسی کو اس میں سے باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا ـ بھارت کے ساتھ ہماری صرف یہ مقابلے بازی ہے کہ اگر وہ کسی بھی جنگی ایجاد کا دھماکہ کرئیگا تو ہم بھی کریں گے ـ ۔ جب بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا تو ہم نے بھی غوری میزائل کا تجربہ کر ڈالا کیونکہ برصغیر کی تاریخ میں پرتھوی راج چوہان اور ہندوستان میں پہلی مرتبہ مسلم ریاست کی بنیاد رکھنے والے شہاب الدین محمد غوری کے درمیان جنگ میں غوری فتحیاب ہوا تھا۔ ـ ہم نے اس ایک مقابلے کے علاوہ ہندوستان کو کسی اور میدان یعنی صحت،تعلیم ،سائنس ،جمہوریت ،انسانی حقوق ،صنعت و حرفت یا زراعت میں تحقیق و مقابلے بازی کے قابل نہیں سمجھا جو دکھ کی بات ہے۔ ـ پاکستان بنانے کا مقصد ہی پاکستانیوں کی زندگیوں کو معاشی سماجی اور انسانی لحاظ سے بہتر بنانا تھا جسکے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے ایسا ممکن نہیں مگر آج ہماری مقابلے بازی کی سمت ہی بدل چکی ہے۔ ـ یہ ساری تمہید محترمہ مریم نواز کے اس بیان اور اس کے رد عمل کے طور پر برادرم حامد میر کے کالم کے حوالے سے ہے جنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی کارکنوں خصوصاً خواتین کی سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں بات کی تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مصائب اور دکھوں کا ایک نوحہ ہے جو اب تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ منشور بن چکا ہے کیونکہ وہ اپنے مصائب اور تکلیفوں کو بیان کر کے لوگوں سے ووٹ حاصل کرتے ہیں گویا ابھی تک ہمارے ہاں ووٹ کارکردگی کی بجائے ہمدردی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، ـ یاد رکھیے صرف ہمدردی کی بنیاد پر خیرات ہی دی جاتی ہے ـ ایسے لوگوں سے پھر آپ کس کارکردگی کی توقع رکھ سکتے ہیں جن کے کاسے میں تعلیم و ہنر کی بجائے ہمدردی کی خیرات ہو ؟ اب حالیہ برسوں میں وہی دکھوں کے مقابلے ، پی ٹی آئی کے دوست دوسری جماعتوں کے ساتھ کر رہے ہیں جو دوسری جماعتیں پہلے آپس میں کیا کرتی تھیں ـ کیا اس سے ہماری سیاست،معیشت یا سماجی ترقی پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں ؟ صرف ایک ہی صورت میں ماضی کی یہ تاریکیاں کچھ روشنی دے سکتی ہیں اگر ہم ان سے کچھ سبق سیکھیں اور اقتدار کے میوزیکل چیئر کا پرانا کھیل بند کر دیں ورنہ نہ صرف باہمی کدورتیں بڑھیں گی بلکہ پاکستان نت نئے مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا ـ جب معتوب پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ا سے اپنے دکھ سہنے والے سپورٹرز کی وہ باتیں بھی ماننا پڑتی ہیں جو اجتماعی فلاح و بہبود سے متصادم ہوتی ہیں لہٰذا پارٹی کارکردگی سے بہت دور چلی جاتی ہے اور پھر بہت جلد عوامی تائید سے محروم ہو جاتی ہے ـ دکھوں کے مقابلے روکنے اور مثبت مقابلے بازی کا آغاز کرنےکیلئے ضروری ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والی جماعت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اسے سیاسی شہید بننے کا موقع نہ ملے اور ملک کی سیاست کارکردگی کے حوالے سے جانی جائے ۔ـ کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی بھی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی تو پھر ایسے دکھی ماحول میں دکھوں کے مقابلے ہی ہو سکتے ہیں جو اب رک جانے چاہئیں ـ میرا آج کا شعر

جراتِ کفر بھی ملتی ہے اسی بستی میں

حوصلہ جس کے مکینوں کا خدا جیسا ہے

تازہ ترین