• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دفاعی دنیا میں بعض خبریں صرف خبر نہیں ہوتیں بلکہ آنیوالے وقت کا نقشہ بدلنے والے اعلانات ثابت ہوتی ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان جنگی ڈرون ٹیکنالوجی کے اشتراک پر مبنی نیا منصوبہ بھی اسی نوعیت کی ایک بڑی اور فیصلہ کن پیش رفت ہے، جس نے نہ صرف خطے کی اسٹرٹیجک فضا میں نئی ہلچل پیدا کی ہے بلکہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو بھی متاثر کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے بلومبرگ نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ترکیہ پاکستان میں جدید ترین جنگی ڈرونز کی مقامی اسمبلنگ کیلئے ایک بڑا صنعتی پلانٹ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ خبر کسی عام تجارتی سرمایہ کاری کا اعلان نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دفاعی جغرافیے میں ایک گہری تبدیلی کا اشارہ ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں جنگی ٹیکنالوجی کا مرکز زمین سے آسمان کی طرف منتقل ہو رہا ہے، جہاں ڈرونز، مصنوعی ذہانت، رئیل ٹائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، اور اسٹیلتھ پلیٹ فارمز میدانِ جنگ کے بنیادی کردار بن چکے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت چار روزہ کشیدگی،روس یوکرین جنگ، آرمینیا آذربائیجان لڑائی، شام، لیبیا، یمن، اور حالیہ خلیجی تنازعات نے ثابت کردیا ہے کہ آج جنگ کا فیصلہ کرنے والے ہتھیار نہ صرف بغیر پائلٹ کے ہیں بلکہ وہ اتنے تیز، سستے، اور ٹیکنالوجی سے بھرپور ہیں کہ کئی ریاستیں انکی بدولت جنگ کے نتائج بدل چکی ہیں۔

ایسی صورت میں ترکیہ کا پاکستان کے اندر اسٹیلتھ ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کا فیصلہ دونوں ممالک کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کیلئےایک نئے دور کا آغاز ہے۔اطلاعات کے مطابق پاکستان اور ترکیہ کے اعلیٰ سطحی حکام کے درمیان اس منصوبے پر بات چیت گزشتہ سال اکتوبر سے جاری تھی۔ یہ مذاکرات نہ صرف تکنیکی نوعیت کے تھے بلکہ اسٹرٹیجک گہرائی بھی رکھتے تھے، کیونکہ ڈرون ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی منتقلی عام بات نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک بے حد حساس جنگی ٹیکنالوجی اپنے قریبی اتحادیوں تک کو منتقل نہیں کرتے، مگر ترکیہ نےاس معاملے میں پاکستان کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے یہ اعتماد ظاہر کیا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جسکے ساتھ مل کر ترکیہ نہ صرف اپنی دفاعی صنعت کو مزید وسعت دے سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے دفاعی توازن کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سے پانچ ماہ کے دوران مذاکرات میںغیرمعمولی پیش رفت ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ محض پیشکش یا رائے تک محدود نہیں بلکہ عملی سمت میں بڑھ چکا ہے۔ دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے درمیان ٹیکنالوجی ٹرانسفر، مقامی افرادی قوت کی تربیت، خام پرزہ جات کی فراہمی، سیکورٹی پروٹوکولز، فیکٹری کے ممکنہ مقامات اور سرمایہ کاری کے حجم کے بارے میں بھی بات چیت تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ترک حکام کے مطابق پاکستان میں ترک جنگی ڈرونز کی فیکٹری کا قیام نہ صرف برآمدات میں اضافے کا ذریعہ بنے گا بلکہ اس سے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اسٹرٹیجک انضمام بھی نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔ انکے مطابق یہ منصوبہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ترکیہ کا سب سے قابلِ اعتبار اور مضبوط عسکری شراکت دار ہے۔

ڈرون ٹیکنالوجی کو جدید دنیا کا ایک اہم،ماڈرن اور حساس پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی خصوصیات کچھ یوں ہیں، اسٹیلتھ ڈیزائن ، یعنی دشمن کے ریڈار سے تقریباً غائب۔ یہ ٹیکنالوجی عموماً صرف انتہائی جدید فضائیہ رکھنے والے ممالک کے پاس ہے۔اسٹیلتھ ڈرون نہ صرف کم اونچائی پر پرواز کرسکتا ہے بلکہ دشمن کے ریڈار نیٹ ورک کو بائی پاس کرتے ہوئے اندرونی علاقوں اور دور دراز مقامات پر کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایسے ڈرونز کم از کم 1000 کلومیٹر یا اس سے زائد فاصلے تک اپنے مشن کامیابی سے انجام دے سکتے ہیں۔ یہ ڈرونز نہ صرف میزائل، گائیڈڈ بم اور ہائی پریسیژن وار ہیڈزلیجا سکتے ہیں بلکہ ان کا ٹارگٹنگ سسٹم بھی انتہائی جدید ہے۔یہAI enabled drones مستقبل کی جنگوں میں فیصلہ کن ہتھیار تصور کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جسکے ساتھ ترکیہ نے نہ صرف مِلگم کارویٹ ٹیکنالوجی شیئر کی بلکہ اس کی مقامی پروڈکشن کی اجازت بھی دی۔اس سے قبل یہ تعاون صرف نیٹو ممالک کے درمیان محدود تھا جبکہ ترکیہ نے پاکستان کے F-16 بیڑے کی اپ گریڈیشن میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔علاوہ ازیں پاکستان، ترکیہ کے پانچویں نسل طیارے قاآن KAANمنصوبے میں بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے یہ پانچویں نسل کاطیارہ صرف چندسپر قوتوں کی ہی ملکیت ہے۔ترکیہ اسٹیلتھ جنگی ڈرون فیکٹری کے قیام سے پاکستان ترکیہ کے ساتھ مشترکہ پروڈیوسرکی حیثیت اختیار کر جائیگا۔ اگرچہ دونوں ممالک کی متعلقہ وزارتوں نے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ اعلان جاری نہیں کیا ،تاہم مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں اور اب صرف تکنیکی تفصیلات طے پانا باقی ہیں اور جلد ہی اس سلسلے میں سرکاری اعلامیہ جاری کردیا جائے گا۔ پاکستان میں اس منصوبے سے دفاعی شعبے میں انقلاب برپا ہونے کی توقع کی جا رہا ہے اور اس طرح پاکستان صرف ڈرون خریدنے والا ملک نہیں بلکہ ڈرون تیارکرنے والے ملک کی حیثیت اختیار کرلے گا جوپاکستان کی دفاعی خود مختاری کو ایک نئی بنیاد فراہم کرے گا۔ ترکیہ اور پاکستان دونوں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ مستقبل میں جنگی حکمتِ عملی کا محور ڈرون وار فیئر، مصنوعی ذہانت، رئیل ٹائم بٹل مینجمنٹ اور اسٹیلتھ ٹیکنالوجی بننے والی ہے۔ اس تناظر میں یہ فیکٹری دونوںممالک کیلئے آنے والے 20 سے 30 سال کے سیکورٹی پیرامیٹرز کو نئی شکل دے سکتی ہے۔ پاکستان میں اسٹیلتھ ڈرونز کی اسمبلنگ کا مطلب محض ایک فیکٹری نہیں، بلکہ یہ پاکستان کیلئے Defence Sovereignty کی نئی بنیاد ہے۔

تازہ ترین