• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آج آپ کے کالم نے اُداس کر دیا ۔‘‘ یہ پیغام مجھے چار دسمبر کی شام موصول ہوا ۔ پیغام بھیجنے والے منیر احمد منیر تھے ۔ پھر کافی دیر کے بعد اُنکا ایک اورتفصیلی پیغام ملا جو اُس دن شائع ہونے والے میرے کالم’’ جب آنچل سے بنے پرچم‘‘ کے بارے میں تھا ۔ اس کالم میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا ذکر تھا جو لاہور کی ایک جیل میں قید ہیں ۔ منیر احمد منیرنے مجھے ایک اخبار کا تراشہ بھیجا ۔ یہ گیارہ ستمبر 2025 ء کو ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے قائد اعظم کو لکھے جانیوالے ایک خط کی چھوٹی سی خبر تھی ۔ قائد اعظم کی برسی پر ڈاکٹر یاسمین راشد نے انہیں خط میں کہا تھا کہ قائد اعظم آپ نے جس ملک کو آزاد کرایا تھا آج میں وہاں آزاد نہیں بلکہ ایک سیاسی قیدی ہوں ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے لکھا کہ مجھے غلط الزامات کے تحت قید کیا گیا ہے۔ عدلیہ اقتدار کے سامنے جھک چکی ہے اور عوام کی مرضی کو طاقت دھمکی، سنسر شپ اور ریاستی تشدد سے دبا دیا گیا ہے۔منیر احمد منیر نے اس تراشے کے ساتھ اپنے پیغام میں مجھے یاد دلایا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اس شخص کی بہو ہیں جس کا نام ملک غلام نبی تھا۔ اس شخص کی تقریر کے بعد قائد اعظم نے 3 جون 1947 ء کے پارٹیشن پلان کو منظور کیا تھا ۔ قائد اعظم کے اس بہادر سپاہی کی بہو جیل سے قائد اعظم کو خط نہ لکھے تو کیا کرے ؟ منیر احمد منیر ایک صحافی ، مصنف اور تحریک پاکستان کے محقق ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر اُنکی کئی کتابیں معلومات کا ایسا خزانہ ہیں جسکا ذکر میں کئی مرتبہ اپنے کالموں میں کر چکا ہوں ۔ منیر صاحب کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ۔ انہوں نے اپنے واٹس ایپ نمبر پر اپنی تصویر نہیں بلکہ ایک نعرہ آویزاں کر رکھا ہے اور یہ نعرہ ہے ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ منیر احمد منیرنے اس نعرے کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے ۔ انکی ایک کتاب’’دی گریٹ لیڈر ‘‘قائد اعظم پر لکھی جانے والی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ منیر احمد منیر نے اپنی اس کتاب میں قائد اعظم کے ساتھیوں اور سپاہیوں کے انٹرویوز شامل کئے ۔ اس کتاب کو اتنی پذیرائی ملی کہ انہوں نے مزید بزرگوں کو تلاش کیا جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھ کام کیا ۔ قائد اعظم کے بارے میں آنکھوں دیکھی تاریخ کو محفوظ کرنے کا یہ سلسلہ دراز ہوا اور’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب پر میں کالم بھی لکھ چکا ہوں ۔ منیر احمد منیر کا سب سے معتبر حوالہ اُنکی اسی کتاب کو سمجھتا ہوں۔ منیر صاحب کے آنسوؤں بھرے پیغام میں چھپے دُکھ نے مجھے ملک غلام نبی کی کتاب ’’قصہ ایک صدی کا‘‘ یاد دلادی۔ ملک غلام نبی صاحب 98 سال کی عمر میں 2009 ء میں دنیا سے رخصت ہوئے ۔اُنکی یہ کتاب 2004 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ وہ تحریک پاکستان کے اُن رہنماؤں میں سےایک تھے جنکو برطانوی سرکار نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا ۔ 1946 ء کے الیکشن میں دادو کے حلقہ میں مسلم لیگ کے قاضی اکبر کا مقابلہ جی ایم سید سے تھا جو تحریک پاکستان کے مخالفین میں شامل ہو چکے تھے ۔ مسلم لیگ نے ملک غلام نبی کو قاضی اکبر کی الیکشن مہم چلانے کیلئے لاہور سے دادو بھیجا اور انہوں نے قاضی اکبر کو کامیابی دلائی۔ جب مسلم لیگ نے ملک خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کیا تو پنجاب میں مسلم لیگیوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں ۔ 26 جنوری 1947ء کو ملک غلام نبی امرتسر سے گرفتار ہوئے ۔ انکی رہائی کیلئے امرتسر میں ایک جلوس نکالا گیا ۔ یہ جلوس جیل کے باہر پہنچا تو ملک غلام نبی جیل کی چھت پر چڑھ گئے ۔ اُنہوں نے جیل کی چھت سے برطانوی سرکار کے خلاف ایک جو شیلی تقریر کر ڈالی ۔ پولس نے جلوس پر گولی چلا دی اور ایک مسلم لیگی کارکن محمد شریف شہید ہو گیا۔ اس جلوس نے کچہری پہنچ کر برطانوی پرچم کو تار تار کر دیا جسکے بعد ملک غلام نبی کو گورداسپور جیل منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر عمر حیات ، میاں محمود علی قصوری، ملک شوکت ایڈووکیٹ، چودھری علی اکبر ایڈووکیٹ ، آغا شیر احمدخاموش، خواجہ محمد آصف کے والد خواجہ محمد صفدر، چودھری محمد عبد الله لدھیانوی، میاں مبارک دین اور احمد سعید کرمانی سمیت کئی دیگر مسلم لیگی بھی قید تھے ۔ اس جیل کے باہر بھی ایک جلوس آگیا اور ملک غلام نبی کچھ سکھ قیدیوں کی مدد سے دوبارہ جیل کی چھت پر چڑھ گئے ۔ انہوں نے چھت سے ایک اور تقریر داغ دی اور گورداسپور میں بھی احتجاج شروع ہو گیا جسکے بعد خضرحیات ٹوانہ 2 مارچ 1947 ء کو حکومت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے ۔ 3 جون کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا جس میں بہت سے مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کئے گئے تھے۔ 9 جون 1947 ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس بلایا گیا تا کہ فیصلہ کیا جائے کہ اس پارٹیشن پلان کو منظور کیا جائے یا نہیں ؟ ملک غلام نبی کو اس اجلاس میں تقریر کیلئے بلایا گیا وہ اس اجلاس میں اپنے دوستوں فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت کے ہمراہ شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں صرف آٹھ رہنماؤں کو تقریر کی دعوت دی گئی جن میں ملک غلام نبی بھی شامل تھے ۔ کئی مقررین نے تقسیم ہند کے منصوبے کو مسترد کر دینے پر زور دیا لیکن ملک غلام نبی نے اس منصوبے کو قبول کرنے کی حمایت کی ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میری تقریر کے دوران قائد اعظم نے مجھے پوچھا’’ نوجوان کیا میں اس کٹے پھٹے پاکستان کو قبول کرلوں ؟ ‘‘ تو میں نے جواب میں عرض کیا کہ قائداعظم یہ جیسا بھی پاکستان ہے ہمیں کرہ ارض پر مل رہا ہے اگر یہ آسمانوں پر بھی دیا جائے تو میری التجا ہے اسے قبول کر لیں جب دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نیا نام ابھرے گا تو دنیا حیران رہ جائیگی ۔اس تقریر پر اجلاس کی فضا ہی بدل گئی ۔ سوائے مولانا حسرت موہانی کے باقی سب نے تقسیم ہند پلان کو منظور کرنے پر اتفاق کر لیا اور یوں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک غلام نبی نے حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1951 ء میں دھاندلی کے باوجود پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمان کے کنٹرول میں چلی گئی ۔ 1970 ء کے میں ملک غلام نبی نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیل سے الیکشن میں حصہ لیا ۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے قیدی تھے لیکن جیل میں بیٹھ کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر پنجاب کے وزیرتعلیم بنے۔ اپنی سوانح عمری کے آخر میں ملک غلام نبی نے جن شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا اُن میں پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل ہیں۔ جب یہ کتاب لکھی گئی تو یاسمین راشد تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوئی تھیں لیکن ملک غلام نبی نے اپنی اس بہو کو اسوقت بھی دلیر اور حق پرست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ سچی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ ڈالتی ہیں ۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ ایک دن انکی یہ دلیر بہو بھی اُنکی طرح جیل پہنچ جائیگی اور جیل سے الیکشن بھی لڑے گی ۔ منیر احمد منیر تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی قید پر کم اور ملک غلام نبی کی بہو کی قید پر زیادہ دُکھی ہیں۔یاسمن راشد نے تو قائداعظم کے نام خط لکھ کر اخبارات کو جاری کر دیا لیکن منیر احمد منیر کا آنسوؤں بھرا خط صرف مجھ تک پہنچا۔ میں اسے آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔ منیر صاحب آجکل’’دی گریٹ لیڈر‘‘کی پانچویں جلد پر کام کر رہے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے اپنا کام جاری رکھیں۔ قائداعظم کا پیغام پھیلاتے جائیں۔ ہماری نجات قائد اعظم کے راستے پر چلنے میں ہے ۔ نئی نسل قائد اعظم کے پاکستان کو ضرور بچائے گی اور آگے بھی بڑھائے گی ۔ قائداعظم زندہ باد۔

تازہ ترین