• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر ہماری عیدالاضحی اپنے گاؤں علیوٹ مری میں گزرتی ہے۔ گزشتہ عید پر بھی قربانی گاؤں میں ہی کی۔ گاؤں میں جیسا ہوتا ہے کہ آس پاس کے لوگ ایک ہی جگہ اکٹھی قربانی کرتے ہیں، ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں عموماً ہمارے گھر کے پاس ہی قربانی ہوتی ہے۔ ماضی میں ہمیشہ یہ شکایت رہتی تھی کہ قربانی کی آلائشیں قریب جنگل میں پھینک دی جاتی تھیں جس سے کئی دن وہاں بدبو پھیلی رہتی تھی۔ اس سال مجھے جو خوشگوار حیرت ہوئی وہ یہ کہ قربانی کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ستھرا پنجاب کی ٹیم گاڑی کے ساتھ آئی اور تمام آلائشیں اور گندگی اُٹھا کر سب کچھ صاف کر کے چلی گئی۔ پہلے سن چکا تھا کہ ستھرا پنجاب والے گاؤں کے اندر تک باقاعدہ صفائی کرتے ہیں۔ عید کے موقع پر خود صفائی کا یہ نظام دیکھ کر خوشی ہوئی جس پر میں نے ٹویٹ کیا۔ اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر موجود تحریکِ انصاف کے گالم گلوچ بریگیڈ نے میری ٹرولنگ شروع کر دی کہ دیکھیں کیسے وزیراعلیٰ مریم نواز کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ٹویٹ میں میں نے جو دیکھا صرف اُس کا ذکر کیا تھا، لیکن گالم گلوچ بریگیڈ کا المیہ یہ ہے کہ جہاں اُن کے کسی مخالف کی حکومت ہو وہاں کسی اچھے اقدام کی بھی تعریف کرنا جرم ہے۔ اب تو پاکستان سے باہر سے بھی ستھرا پنجاب کی تعریفیں ہو رہی ہیں، یعنی یہ جرم اب پاکستان سے باہر تک پھیل چکا ہے۔ ویسے میں مریم نواز صاحبہ کے جس اقدام کو بہت سراہتا ہوں اُس کا تعلق بیوروکریسی اور پولیس سے ہے، اور وہ یہ کہ انہوں نے پولیس اور بیوروکریسی میں تعیناتیوں کے حوالے سے سیاسی اور بیرونی سفارشوں اور دباؤ کا راستہ بند کر دیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو بہت مشکل تھا اور یہ کام میاں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان یا کوئی دوسرا بھی نہ کر سکا۔ اس پر ن لیگیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی والے بھی مریم نواز سے ناراض ہیں، لیکن وہ ابھی تک اس سلسلے میں ڈٹی ہوئی ہیں۔ پنجاب میں اور بھی کئی کام اور پروجیکٹس کے دعوے ہو رہے ہیں، لیکن میرا چونکہ پنجاب سے ذاتی تعلق مری کی حد تک ہے تو وہاں جانے پر ماضی کے برعکس بہت بہتری دیکھتا ہوں۔ کبھی کبھار پنڈی جانا ہوتا ہے تو وہاں کچھ علاقے تجاوزات سے صاف نظر آ رہے ہیں، جبکہ صدر کا علاقہ بھی اچھا نظر آتا ہے۔ لیکن جب آپ کمیٹی چوک اور لیاقت باغ کے انڈر پاسز سے گزرتے ہیں تو پھر آپ کو وہی پرانا پنڈی نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ جو علاقہ یا سڑک اور انڈر پاس مریم نواز کی نظر میں نہیں وہ ابھی تک نظر انداز ہی ہے۔ حال ہی میں جی ٹی روڈ پر جہلم تک سفر کرنے کا موقع ملا تو اُس میں بھی کئی جگہ گڑھے اور خراب سڑک دیکھی۔ میاں صاحب اور مریم صاحبہ کو چاہیے کہ وہ موٹروے کی بجائے کبھی کبھار جی ٹی روڈ پر بھی سفر کیا کریں تاکہ اُس سڑک کی بھی بہتری ہو سکے۔ حال ہی میں جو بہت اچھا کام پنجاب حکومت نے کیا اُس کا تعلق ٹریفک سے ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کر دیے گئے، جس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بہت اچھا اقدام ہے اور اگر اس پر سختی سے عمل کیا گیا تو ہماری ٹریفک میں نظم نظر آئے گا، ٹریفک حادثات بھی کم ہوں گے۔ اب جو چیز فوری سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اکثر موٹرسائیکل والوں نے ہیلمٹ پہننا شروع کر دیے ہیں۔ پنڈی والوں اور مری سے بھی پتا چل رہا ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی پر بہت چالان ہو رہے ہیں۔ لائسنس اور گاڑی کے کاغذات بھی دیکھے جاتے ہیں۔ کراچی میں بھی ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانوں کے نفاذ کی خبریں سامنے آئیں، جس پر بہت سے لوگوں نے شور مچایا۔ میری پنجاب اور سندھ حکومت سے درخواست ہے کہ اس معاملے پر کسی دباؤ یا پریشر کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا جائے۔ دنیا بھر میں ٹریفک قوانین کی عمل داری کو یقینی بنانے کیلئے بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں اور انہی بھاری جرمانوں کے ڈر سے لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی کرتےہیں۔ بسنت کے حوالے سے پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے پر مجھے اعتراض ہے۔ بسنت اور پتنگ بازی نے ماضی میں کئی بیگناہوں کا خون کیا۔ بسنت کی اجازت دی جا رہی ہے، نیا قانون بھی بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر اور سخت قانون کے ساتھ بسنت کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود اگر اس تہوار کی وجہ سے پھر کوئی قیمتی جان ضائع ہوئی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اس ذمہ داری کا مریم نواز کو احساس کرنا چاہیے۔ پنجاب میں جرائم کے حوالے سے بھی جو اعدادوشمار سامنے آ رہے ہیں اُن کے مطابق صوبے میں جرائم میں کمی ہو رہی ہے۔ جو بھی حکومت ہو اُس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح اور اُن کی بہتری کیلئے دن رات کام کرے۔ یہ کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ یہ حکمرانوں کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ حکمران اس ذمہ داری کو اکثر پورا کرنے کی بجائے بادشاہ بن جاتے ہیں، اس لیے جب حکومتیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے کوئی کام کریں تو اچھا لگتا ہے۔ اس حوالے سے مریم نواز صاحبہ اگر کوئی اچھا کام کر رہی ہیں تو وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں، اس لیے ایسے تمام کاموں میں ذاتی تشہیر اور ہر پروجیکٹ کو میاں صاحب یا اپنے نام سے منسلک کرنے جیسے عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ میں تو مطالبہ کروں گا کہ اس پر قانونی طور پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔

ماضی کے تجربے کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ میرے اس کالم پر بھی گالم گلوچ بریگیڈ سوشل میڈیا پر میری ٹرولنگ کرے گا۔ اس لیے کیوں نہ پنجاب میں ستھرا پنجاب سمیت جو بھی اچھا کام ہو رہا ہے اُس پر عثمان بزدار کو شاباش دیں اور اس پر ضد باندھ لیں کہ ایسے تمام کاموں کی بنیاد دراصل عثمان بزدار نے ہی رکھی تھی۔ اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے گالم گلوچ بریگیڈ کیلئے میری طرف سے عثمان بزدار کا شکریہ!

تازہ ترین