• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سیاست کے ہنگامہ خیز منظرنامے میں بعض اوقات ایک مختصر ویڈیو، ایک ادھوری خبر یا سیاق و سباق سے کاٹی گئی تصویر کو پورے واقعے پر غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ کا سبق مگر یہی ہے کہ وقتی شور سچ کو دبا نہیں سکتا۔ ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں منعقد ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس برائے امن و اعتماد کے موقع پر پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کی سفارتی مصروفیات اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ روابط کو جس طرح بعض حلقوں نے متنازع بنانے کی کوشش کی، وہ دراصل پاکستان کے بڑھتے ہوئے سفارتی رسوخ اور فعال عالمی کردار کا اعتراف تھا۔ اشک آباد کانفرنس محض ایک رسمی اجتماع نہیں تھی، بلکہ عالمی نظام میں اعتماد کی بحالی، علاقائی سلامتی، تنازعات کے پُرامن حل اور کثیرالجہتی تعاو ن کیلئے ایک اہم پلیٹ فارم تھی۔ ایسے فورمز پر شرکت کسی بھی ملک کیلئے محض نمائشی نہیں ہوتی؛ یہ اسکے سفارتی قد، عالمی شمولیت اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے وزیرِاعظم شہباز شریف کی شرکت نے واضح کیا کہ اسلام آباد خود کو عالمی مباحث سے الگ نہیں رکھتا بلکہ ذمہ دارانہ شراکت داری پر یقین رکھتا ہے۔کانفرنس کے دوران وزیرِاعظم کی ترکیہ، ترکمانستان اور ایران کے صدور کے ساتھ دو طرفہ بات چیت نے علاقائی تعاون، توانائی، تجارت اور سلامتی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا، جبکہ روس، تاجکستان اور کرغزستان کے سربراہان کے ساتھ غیر رسمی روابط نے سفارتی ہم آہنگی کو تقویت دی۔ یہ تمام ملاقاتیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ پاکستان عالمی سیاست میں ایک فعال فریق ہے۔

اس کانفرنس کے موقع پر سوشل میڈیا پر اس وقت طوفانِ بدتمیزی دیکھنا پڑا جب آر ٹی انڈیا نے ایک 14 سیکنڈ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی، اور دعویٰ کیاکہ شہباز شریف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا 40 منٹ انتظار کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی سفارت کاری کو 14 سیکنڈ کے کلپ میں قید کیا جا سکتا ہے؟ کیا عالمی اجلاسوں میں شیڈول کی تبدیلی، مرحلہ وار شمولیت یا بیک ٹو بیک ملاقاتیں غیر معمولی بات ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ نہیں۔ ایسے فورمز پر یہ سب روزمرہ کا حصہ ہوتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد آر ٹی انڈیا کو خود اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی۔ یہ اقدام بذاتِ خود اس بیانیے کی کمزوری کا اعتراف تھا۔ اگر واقعی کوئی سفارتی بے توقیری ہوئی ہوتی تو نہ صرف روسی یا ترک میڈیا اسے نمایاں کرتا، بلکہ کریملن کو وضاحت بھی دینا پڑتی۔ اسکے برعکس، روسی نشریاتی اداروں نے اس ملاقات کو معمول کی سفارتی سرگرمی کے طور پر رپورٹ کیا۔یہاں بھارتی میڈیا کی جلد بازی اور تعصب واضح ہو گیا۔اہم بات یہ ہے کہ روسی میڈیا نے اس ملاقات کو علاقائی سلامتی، ثالثی کردار اور عالمی تعاون جیسے سنجیدہ موضوعات سے جوڑا، نہ کہ کسی توہین آمیز یا متنازع پہلو سے۔ یہ فرق خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پروپیگنڈا کہاں سے آیا اور حقیقت کہاں تھی۔

یہ واقعہ دراصل بھارتی میڈیا کی طرف سے بے بنیاد اور جھوٹی خبریں گھڑنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے بعد دنیا میں بھارت کے تنہا رہ جانے کا بخارابھی بھارتی میڈیا کے سر سے اترا نہیں ہےاور ان کی یہی بے چینی،منفی خبروں، ادھورے کلپس اور گمراہ کن بیانیوں کو جنم دے رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست جذبات سے نہیں، مفادات اور حقائق سے چلتی ہے۔

اشک آباد کانفرنس میں ایک اور نمایاں پہلو ترکیہ، روس اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی ہم آہنگی تھی۔ صدر رجب طیب ایردوان ، صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی موجودگی نے یہ پیغام دیا کہ یہ ممالک علاقائی استحکام اور مکالمے کے حامی ہیں۔پاکستان کا اس مثلث میں شامل ہونا اس کے تزویراتی وزن کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ محض رسمی تعلقات نہیں بلکہ توانائی، دفاع، تجارت اور سفارت کاری میں عملی تعاون کی بنیاد ہیں۔سفارت کاری میں وقار محض پروٹوکول سے نہیں، بلکہ اعتماد سے بنتا ہے۔ اشک آباد میں پاکستان کی نمائندگی نے یہ ثابت کیا کہ اسلام آباد کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے۔ ایک ویڈیو یا ایک دعویٰ اس وقار کو کم نہیں کر سکتا جو برسوں کی سفارتی محنت سے قائم ہوا ہو۔

آخرکار، اس پورے واقعے کا حاصل یہی ہے کہ سبکی پاکستان کی نہیں، بلکہ اس پروپیگنڈے کی ہوئی جو حقیقت کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔ اشک آباد کانفرنس نے ثابت کیا کہ پاکستان عالمی سیاست میں ایک ذمہ دار، متحرک اور قابلِ اعتماد فریق ہے۔وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کا سفارتی قد بلند ہوا ہے۔ عالمی رہنماؤں کے ساتھ انکے روابط، مسلسل ملاقاتیں اور فعال شرکت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ سچ یہ ہے کہ وقتی شور کے بعد بھی حقیقت باقی رہتی ہے، اور اس حقیقت کا نام پاکستان ہے، جسکے وقار کو بلند کرنے کی وزیراعظم شہباز شریف نے قسم اٹھا رکھی ہے۔

یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عالمی سیاست میں بیانیہ وہی قائم رہتا ہے جو حقائق پر مبنی ہو۔ پروپیگنڈا وقتی توجہ حاصل کر سکتا ہے، مگر دیرپا اثر نہیں چھوڑتا۔ پاکستان کی سفارتی ساکھ، وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ مضبوط روابط اس بات کی ضمانت ہیں کہ پاکستان کے وقار میں نہ صرف مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا بلکہ پاکستان اب عالمی اداروں کی ضرورت بن گیا ہے۔ یہی اصل خبر ہے، اور یہی اصل حقیقت۔

تازہ ترین