• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں منظور احمد وٹو کی زندگی میں دو دن بہت اہم تھے۔ 14 اگست اُن کا یوم پیدائش تھا اور 16 دسمبر 2025 اُن کا یوم وفات بن گیا ۔ پاکستان کا یوم آزادی اُن کا یوم پیدائش تھا اور جس دن پاکستان دو لخت ہوا وہ ان کا یوم وفات ہے۔ وہ پاکستان کےسب سے بڑے صوبے پنجاب کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہے ۔ انہیں وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانےکیلئے دو مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا اور دونوں مرتبہ گورنرراج ناکامی سے دوچار ہوا ۔ ان کی آپ بیتی’’ جُرم سیاست‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ آپ بیتی انہوں نے اپنی وفات سے26سال قبل جیل میں لکھنا شروع کی اور دسمبر 2000 ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کے کمرہ نمبر چار میں مکمل کی ۔ وٹو صاحب کی آپ بیتی کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے فلیپ سے ہوتا ہے ۔ محترمہ نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا اور پھر انہیں ہٹانے کیلئے پنجاب میں گورنر راج بھی لگایا ۔ بعد ازاں وٹو اُن کے سیاسی حلیف بن گئے تو انہوں نے اپنی آپ بیتی کا فلیپ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لکھوایا ۔ محترمہ نے لکھا’’میاں منظور احمد وٹوسےاگرچہ کئی بار میرے اختلافات ہوئے لیکن اسکے باوجود ذاتی احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا ‘‘۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وٹو صاحب پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور انہیں پیپلز پارٹی میں لانے والے آصف علی زرداری تھے ۔ وٹو صاحب کو میں اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ اُنکی وجہ سے میں لاہور چھوڑ کر اسلام آباد آیا اور پھر یہیں کا ہو گیا۔ قصہ یہ ہے کہ 1994 ء میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور نواز شریف اپوزیشن میں تھے ۔ نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک نجات شروع کی ۔ ایک دن لاہورمیں مال روڈ پر مسجد شہداء کے سامنے مسلم لیگ (ن)کے کارکن احتجاج کیلئے اکٹھے ہوئے تو پولیس نے لاٹھی چارج کے ذریعہ اُنہیں منتشر کر دیا ۔ جاوید ہاشمی وہاں پہنچے تو پولیس کو اپنے کارکنوں کے ساتھ مار دھاڑ کرتے دیکھا ۔ انہوں نے پولیس والوں سے کہا کہ کم از کم عورتوں کو تو مت مارو۔ ایک ڈی ایس پی نے جاوید ہاشمی کو سڑک پر گرا کر انہیں لاٹھیاں مارنی شروع کر دیں ۔ میں وہاں کچھ دیگر صحافیوں کے ساتھ موجود تھا ۔ میں نے جاوید ہاشمی پر پولیس کا تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پولیس انہیں گرفتار کر کے تھانہ سول لائنز لے گئی ۔ اس دوران نواز شریف کی گاڑیوں کا قافلہ بھی وہاں پہنچ گیا۔ ریگل چوک میں صورتحال پہلے ہی کشیدہ تھی ۔ نواز شریف کی آمدکےبعد مسلم (ن)کے بکھرے ہوئے کارکن دوبارہ اکٹھے ہو گئے ۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور جب آنسو گیس کام نہ آئی تو ہوائی فائرنگ کی گئی ۔ اس دوران کچھ مسلم لیگی کارکن گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم پی اے انعام اللہ نیازی نے نواز شریف کو بتایا کہ ریگل چوک میں جو کچھ بھی ہوا اُسکا عینی شاہد حامد میر ہے ۔ نواز شریف صاحب نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ پولس نے اُن کے قافلے پر براہ راست فائرنگ کی جسکے گواہ حامد میر ہیں ۔ اب میں وٹو حکومت اور نواز شریف کی لڑائی میں پھنس چکا تھا ۔ میں نے مسلم لیگ (ن )کے زخمی کا رکن تو دیکھے تھے اور پولیس کی ہوائی فائرنگ بھی دیکھی تھی لیکن پولیس کی براہ راست فائرنگ مجھے نظر نہیں آئی تھی ۔ پولیس کا موقف تھا کہ مسلم لیگی کارکن اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ۔ ناچیز نے اگلے دن’’جو میں نے دیکھا‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں تمام واقعات کا آنکھوں دیکھا حال لکھ دیا ۔ اس کالم پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو سخت ناراض ہوئے ۔ وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے انسان تھے لیکن انکے کچھ مشیروں نے ایسی آگ لگائی جو بجھنے میں نہ آئی۔ صوبائی حکومت نے میرے اخبار کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ مجھے نوکری سے فوری برخاست کیا جائے ۔ میرے اخبار کے چیف ایڈیٹر اکبر علی بھٹی اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر طاہرمجید نے صوبائی حکومت کے دباؤ سے نکلنے کیلئے مجھے اسلام آباد بھیج دیا ۔ خیال تھا کہ کچھ دنوں بعد معاملہ ٹھنڈا ہونے پر میں واپس لاہور آ جاوں گا۔ روز نامہ پاکستان میں میرے کالم بند نہ ہوئے ۔ ان کالموں میں حکومت پر تنقید جاری رہی۔ صوبائی حکومت نے مجھے نوکری سے نکلوانے کیلئے اخبار کے اشتہارات بند کر دئیے ۔ مخدوم الطاف احمد پیپلز پارٹی کی طرف سے سینئر وزیر کے طور پر وٹو حکومت میں شامل تھے ۔ خزانہ کا محکمہ اُن کے پاس تھا ۔ انہوں نے وٹو صاحب کے ساتھ میرا معاملہ طے کرانے کی بہت کوشش کی لیکن وٹو صاحب کے کچھ صحافی دوست مجھے سبق سکھانے پر تلے بیٹھے تھے۔ 1995 ء میں مخدوم صاحب کا انتقال ہو گیا ،اس دوران مجھے روزنامہ پاکستان اسلام آباد کا ایڈیٹر بنا دیا گیا اور میں مستقل طور پر لاہور بدر ہو گیا۔ بعد ازاں وفاقی حکومت نے وٹو صاحب کو ہٹا کر سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنادیا ۔ فروری 1999 ء میں نواز شریف حکومت نے کرپشن کے الزام میں وٹو صاحب کو گرفتار کر لیا۔ وٹو اور نواز شریف میں دوستی اور دشمنی کی کہانی بہت پرانی تھی ۔جنرل ضیاء الحق کے دور

میں دونوں تحریک استقلال میں اکٹھے تھے ۔ 1985 ء میں دونوں پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ اور وٹو صاحب سپیکر پنجاب اسمبلی بنے ۔ 1993 ء میں وٹو صاحب نے پنجاب کی تاریخ کا پہلا عدم اعتماد کرایا اور غلام حیدر وائیں کو ہٹا کر وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ نواز شریف کی دوسری حکومت نے وٹو صاحب کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں فضول خرچی کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ یہ ایک انتقامی کارروائی تھی جس پر میں نے تنقید کی ۔ اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو وٹو صاحب نے مجھے فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جیل میں میرے کالم پڑھتے رہے ہیں اور نواز شریف حکومت کی پالیسی پر میری تنقید سے بڑے متاثر تھے ۔ وٹوصاحب مجھ سے بار بار پوچھتے تھے کہ آئندہ انتخابات کب تک ہوں گے ؟ میں نے وٹو صاحب کو بتایا کہ فی الحال انتخابات نہیں ہونگے البتہ آپکو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ پہلے تو وٹو صاحب کو یقین نہ آیا لیکن جب انہیں گرفتار کر کے خواجہ محمد آصف اور فیصل صالح حیات کے ساتھ بند کیا گیا تو انہیں یقین آگیا کہ میں نے کوئی غلط بیانی نہیں کی تھی۔2008 ء میں وہ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار بنے تو اسلام آباد میں اُن سے سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ میں اُنہیں کبھی کبھی اپنا محسن کہتا تو وہ مسکرا دیتے ۔ وہ روایتی فیوڈل نہیں تھے ۔ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ یونین کونسل سے سیاست شروع کی اور وزیراعلیٰ بنے۔ بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں معظم میں پیدا ہوئے اور مہاجر بن کر پاکستان آئے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں کئی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن میرے خیال میں انہوں نے جیل میں اپنی قید تنہائی کے متعلق جو لکھا وہ بہت اہم ہے ۔ میاں منظور احمد وٹو لکھتے ہیں ۔’’جان سے پیاروں اور اپنوں سے دور قید تنہائی کی بے چینی اور اضطراب ناقابل بیان ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں چاند کی چاندنی ، ستاروں کی مدھم روشنی اور کتابوں سے دوستی آپ کیلئے دلجوئی کا سامان پیدا کرتی ہے ۔ یہ تنہائی اکثر اوقات آپکی بہترین ساتھی بن جاتی ہے اور اس تنہائی میں گزرے وقت کی غلطیوں کے بارے میں سوچ بچار کا موقع بھی ملتا ہے اس لئے قید تنہائی ایک ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتی ہے ۔‘‘ وٹو صاحب کے یہ الفاظ پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ انہیں نواز شریف حکومت نے قید تنہائی میں رکھا، نواز شریف اور شہباز شریف کو عمران خان نے قید تنہائی میں رکھا اور اب شہباز شریف کے دور میں عمران خان بھی قید تنہائی میں ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں کا تو قید تنہائی بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔ ہمارے آج کے صدر، وزیر اعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم سمیت کئی وزراء قید تنہائی کا ریفریشر کورس کرچکے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں میاں منظور احمد وٹو کی کتاب پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

تازہ ترین