20دسمبر کی سرد شام تھی۔لاہور پریس کلب میں’’روداد ستم‘‘کی تقریب رونمائی سے واپسی پر ماما عبد القدیر بلوچ کی وفات کی خبر ملی ۔ عجیب اتفاق تھا کہ’’روداد ستم‘‘ پر گفتگو کرنیوالے کئی مقررین نے بار بار 2014ء کے اُس لانگ مارچ کا ذکر کیا تھا جو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ماما قدیر نے کوئٹہ سے شروع کیا تھا اور اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا تھا۔’’روداد ستم‘‘ کچھ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں کا مجموعہ ہے اور انہی میں ایک تحریر کا عنوان’’روداد ستم‘‘ ہے جو سمی دین بلوچ کے بارے میں ہے ۔ 2014 ء میں سمی دین بلوچ صرف پندرہ سال کی تھی۔ اُس نے اپنے والد ڈاکٹر دین بلوچ کی بازیابی کیلئے 72 سالہ ماما قدیر بلوچ کے ساتھ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک دو ہزار کلو میٹر کا سفر کیا ۔ یہ لانگ مارچ 27 اکتوبر 2013 ء کو شروع ہوا اور 28 فروری 2014 ء کو اسلام آباد میں ختم ہوا ۔’’ روداد ستم ‘‘ میں ماما قدیر بلوچ اور اُنکے لانگ مارچ کا ذکر ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جس شام بلوچ عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کا یہ قافلہ اسلام آباد پہنچا تو اُنکے پاؤں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ سب کے پاؤں میں پٹیاں تھیں ۔ اُسی شام ماما قدیر بلوچ، فرزانہ مجید بلوچ ، سمی دین بلوچ اور ایک بچے علی حیدر کو میں نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں مدعو کیا۔ اُسوقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مجھے کہا کہ یہ پروگرام نہ کریں ۔ میں نے اُنکو یقین دلایا کہ اس پروگرام میں صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بات ہوگی اور کوئی ایسی گفتگو نہ ہوگی جو آئین اور قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ پروگرام شروع ہو گیا ۔ پروگرام میں وقفہ آیا تو وزیر اعظم نواز شریف کے پولیٹکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کا مجھے فون آگیا ۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم صاحب آپ کا پروگرام دیکھ رہے ہیں اور وہ پروگرام میں موجود ماما قدیر اور باقی بچوں سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میںنے ماما قدیر کو اس بارے میں بتایا تو وہ ملاقات کیلئے راضی تھے ۔ اگلے دن صبح گیارہ بجے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات طے ہو گئی ۔ اُس شام سمی دین بلوچ اور علی حیدر بہت خوش تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ وزیر اعظم کے ذریعے وہ اپنے ابو سے جلد ملاقات کر یں گے لیکن اُسی رات ان سب کو اسلام آباد سے گرفتار کر کے ایئر پورٹ لیجایا گیا اور زبردستی ایک ہوائی جہاز میں بٹھا کر کوئٹہ بھیج دیا
گیا۔پاکستان کے کیپٹل اسلام آباد میں وزیر اعظم کے اختیارات کو ایک روداد ستم میں تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ماما قدیر کو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں بلایا گیا ۔ وہ جو بڑے فخر سے لاہور کو پاکستان کا دل کہتے ہیں وہ بڑے سنگدل واقع ہوئے۔انہوں نے دباؤ ڈال کر لمز میں یہ تقریب منسوخ کروادی ۔ 19اپریل 2014 ء کو مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہو گیا ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس حملے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس نے تین ہفتے میں بتانا تھا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے ؟ ستم ظریفی یہ تھی کہ وزیر اعظم صاحب میری عیادت کیلئے آغا خان ہاسپٹل کراچی آئے اور اگلے ہی دن وزارت دفاع نے جیونیوز کیخلاف غداری کا ریفرنس دائر کر دیا ۔ جیو نیوز آف آئر بھی ہو گیا ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ جب حامد میر حملہ انکوائری کمیشن نے ماما قدیر بلوچ کو گواہی کیلئے طلب کیا تو انہوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ یہ لمحہ میرے لئے بھی تکلف دہ تھا۔ وہ لاپتہ افراد کیلئے مسلسل آواز اُٹھاتے رہے ۔ آخری دم تک کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیانی کیلئے احتجاجی کیمپ میں بھی بیٹھتے رہے لیکن وہ ریاست اور اُسکے اداروں سے مایوس ہو چکے تھے ۔ 2021 میں سمی دین بلوچ ایک دفعہ پھر کچھ بلوچ عورتوں کیساتھ اسلام آباد آئی تو ڈی چوک میں مریم نواز نے بھی اُنکے دھرنے میں شرکت کی ۔ اس مرتبہ ڈاکٹر شیریں مزاری کے ذریعہ سمی دین بلوچ کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہو گئی ۔ ملاقات کے بعد ماما قدیر کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات ہو گئی ہے اور انہوں نے گمشدہ افراد کی بازیابی کا حکم دیدیا ہے ۔ یہ سُن کر ماما قدیر زور سے کھانسا اور پھر بولا ’’ اب اس وزیر اعظم کی خیر مناؤ،عمران خان کا حشر بھی نواز شریف جیسا ہو گا‘‘۔ دسمبر 2023ء میں بلوچ عورتوں اور بچوں کا ایک اور قافلہ فریادی بن کر تربت سے اسلام آباد آیا ۔ اس قافلے کو دسمبر کی سرد رات میں مارا پیٹا گیا اور ماہ رنگ بلوچ سمیت سینکڑوں عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر کے لاک اپ میں بند کر دیا گیا ۔ ایمان مزاری ایڈووکیٹ نےسمی دین بلوچ کی طرف سے ان گرفتاریوں کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ۔ عدالت نے گرفتار عورتوں اور بچوں کی رہائی کا حکم دیا تو انہیں رہا کرنے کی بجائے اسلام آباد سے زبردستی ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی گئی’’روداد ستم ‘‘میں اُس رات کا قصہ بھی بیان کیا گیا ہے جب ان بلوچ عورتوں اور بچوں کو ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کیخلاف میں نے مزاحمت کی اور مجھے بھی پولیس کی گالیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اُس رات ایک بچی ماہ زیب بلوچ بہت چیخی اور چلائی ۔ وہ اپنے چچا کی بازیابی کیلئے احتجاج کر رہی تھی۔ اب کچھ دن پہلے اُسکا باپ بھی گرفتار کر لیا گیا جو ماما قدیر بلوچ کی طرح ایک سابق سرکاری ملازم تھا ۔ جس اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایمان مزاری نے بلوچ عورتوں اور بچوں کی رہائی کا حکم حاصل کیا تھا۔اس اسلام آباد ہائی کورٹ کو عبرت کی مثال بنا دیا گیا ہے ۔ اب وہاں ایک جج دوسرے حج کی ڈگری پر فیصلہ سنا رہاہے۔ ایمان مزاری اور اُنکے شوہر کو بھی جیل بھجوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ۔جس وزیر اعظم کے بارے میں ماما قدیر بلوچ نے کہا تھا کہ اسکا حشر بھی نواز شریف جیسا ہو گا اُسکا نواز شریف سے بہت زیادہ بُرا حشر ہو چکاہے۔عمران خان کو سزا پر سزا سنائی جا رہی ہے۔نواز شریف اور شہباز شریف بڑے خوش ہیں کہ عمران خان کو اب تک مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر سنائی جانیوالی سزائیں پچاس سال تک پہنچ گئی ہیںلیکن زندگی اور موت ، عزت اور ذلت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ کل تک ماما قدیر بلوچ اور نواز شریف ملک دشمن تھے ۔ آج عمران خان ملک دشمن ہے ۔’’روداد ستم‘‘کی تقریب رونمائی میں برادرم سہیل وڑائچ نے آزادی صفحات کے حوالے سےشدید تحفظات کا اظہار کیا۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر کاظم خان نے کہا کہ بہت جلد حامد میر کو روداد ستم کے بعد ’’روداد رحم‘‘لکھناپڑے گی اور یہ رحم وہ لوگ مانگ رہے ہونگے جو آج جبر و ستم کی علامت بنے ہوئے ہیں ۔ کاظم خان کی اس پیشین گوئی کو ماضی قریب کی تاریخ کے آئینےمیں پرکھنے کی ضرورت ہے ۔وہ لوگ جو چند سال پہلے تک دوسروں پر غداری کے الزامات لگاتے تھے آج خود غداری کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ مکافات عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ماما قدیر بلوچ بھی زندگی کے آخری برسوں میں ریاست کے نزدیک غدار تھا ۔ اگرفروری 2014 ء میں اُسکی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہو جاتی تو تمام لاپتہ افراد تو واپس نہ آتے لیکن شائد بلوچستان میں وہ بے چینی اور نفرت نہ پھیلتی جو آج نظر آتی ہے ۔ ماما قدیر بلوچ نے کبھی اسلام آباد اور کبھی لاہور آ کر اپنی ’’روداد ستم‘‘ سنانے کی کوشش لیکن ہر بار اسکی فریاد گستاخی اور غداری قرار پائی ۔ اب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ ریاست اُسے غدار کہتی رہے گی لیکن وہ سمی دین بلوچ سمیت اکثر بلوچ نوجوانوں کی’’روداد ستم ‘‘کا ہیرو ہے ۔ ہو سکتا ہے ماما قدیر بلوچ کی زبان سے نکلنے والے کچھ الفاظ سے کبھی مجھے بھی تکلیف پہنچی ہو لیکن سچ یہ ہے کہ آج وہ مزاحمت کا ایک استعارہ ہے ۔’’روداد ستم‘‘ میں آج کے مظلوم رحم مانگتے نظر آتے ہیں۔ آج کے ستم گر اُسوقت سے ڈریں جب وہ بھی مظلوم بن کر رحم مانگیں گے لیکن’’روداد رحم ‘‘میں وہ مزاحمت کا استعارہ نہیں بلکہ عبرت کی مثال بنیں گے۔