گیارہ برس گزرے،2014 ء میں پت جھڑکے یہی دن تھے۔ ایک مؤقر انگریزی اخبار میں محترم اشرف جہانگیر قاضی نے16دسمبر کو ایک مضمون لکھا تھا۔ ابتدائی جملہ ہی ایسا کھنکتا ہوا ٹکسالی سکہ تھا کہ حافظے پر مرتسم ہو گیا۔ قاضی صاحب نے لکھا تھا۔ Fortunate is the country that has professionally ‘thinking’ generals but unfortunate is the country that has politically ‘thinking’ generals. اشرف جہانگیر قاضی پاکستان کے بہترین سفارت کار رہے ہیں۔ ان گنت ممالک اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انسانی آلام کے شعور نے تاریخ کی نبض شناسی کی صلاحیت بخشی ہے۔ یہ محض نحوست زدہ اتفاق تھا کہ جس روز یہ مضمون شائع ہوا، اس صبح پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ پیش آیا جس میں ہمارے درجنوں نونہالوں سمیت 140 سے زائد شہری شہید ہوئے۔ قوم اس دلدوز واقعے پر ایسی کیفیت سے دوچار ہوئی کہ قاضی صاحب کی تحریر پشاور کی ماؤں کی آہ و بکا میں دب کر رہ گئی۔ قاضی صاحب کا درج بالا جملہ برٹولٹ بریخت کی تمثیل ’گیلیلیو‘ کے اس شہرہ آفاق مکالمے سے ٹکر لیتا تھا جہاں گیلیلیواپنے شاگرد آندرے کے جملے ’بدقسمت ہے وہ قوم جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے‘ کے جواب میں کہتا ہے، ’ نہیں آندرے، بدقسمت ہے وہ قوم جسے آئے روز ایک ہیرو کی ضرورت پیش آتی ہے۔‘ مجھے اس پر یہ اضافہ کرنے کی اجازت دیجیے کہ بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنے محسنوں اور مجرموں میں فرق کرنا نہیں جانتی۔
20 دسمبر 1972ء کو لاہور کی مال روڈ پر پنجاب اسمبلی سے چند سو گز کے فاصلے پر ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ رفیق گولی کا نشانہ بنے تھے۔ گزشتہ 48 برس سے خواجہ صاحب کے دونوں صاحبزادے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق اپنے والد کی برسی پر ایک سیاسی اجتماع منعقد کرتے ہیں۔ یہ تقریب اب سنجیدہ جمہوری مکالمے اور وسیع تر سیاسی نمائندگی جیسی خصوصیات کی بنا پر لاہور کی سیاسی روایت کامستقل حصہ بن گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق آپ کے نیاز مند کے ہم عمر ہیں۔ ہم نے انہیں ایم اے او کالج میں ایک شعلہ بیاں مقرر اور کسی قدر تند خو نوجوان کے طور پر جانا تھا۔ سیاسی عمل کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں اور سیاسی کارکن مسلسل سیاسی تربیت کے عمل سے گزرتا ہے۔ رواں صدی میں خواجہ سعد رفیق ایک مرتب ذہن، کشادہ دل جمہوریت پسند اور صاحب نظر سیاسی رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ رواں ہفتے اس تقریب میں خواجہ سعد رفیق نے پاکستان کے جمہوری بحران کا کانٹے کی تول تجزیہ کر کے اس تالاب کا سکتہ توڑ دیا جس کا جمود حالیہ چند برس سے ہمارے قومی افق پر سیاسی زباں بندی کا استعارہ قرار پایا ہے۔ خواجہ صاحب نے سیاسی قوتوں میں مکالمے کی طرف توجہ دلائی۔ قومی قیادت کو اس کا فرض یاد دلایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستانی عوام کی ترکیب میں موجود جمہوری اجزا کی یاد دہانی کرائی۔ انہوں نے بہت سا سچ بولا لیکن نہ کسی گروہی تعصب کا سہارا لیا، نہ کسی سیاسی مخالف کی دل آزاری کی اور نہ کسی ریاستی قوت پر چاند ماری کی۔ ایسا رویہ ہی سیاسی تدبر کہلاتا ہے۔ ما را از ایں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود۔
تقسیم میں بھارت کو چند در چند فوائد حاصل ہوئے اور پاکستان کو کچھ ایسی مشکلات پیش آئیں جن کی پہلے سے پیش بینی ممکن نہیں تھی۔ بھارت میں انتظامی ڈھانچے موجود تھے۔ صنعت اور تجارت کے شعبے مستحکم تھے۔ سیاسی تنظیم کاری اور جہاندیدہ قیادت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ پاکستان ایک نیا ملک تھا جہاں سیاسی روایت تاریخی طور پر کمزور تھی۔ متحدہ ہندوستان کی چار لاکھ فوج میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار فوج یعنی 35 فیصد پاکستان کے حصے میں آئی۔ معیشت کا ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ملک کے دو حصے جغرافیائی ، لسانی، ثقافتی اورتمدنی طور پر بالکل مختلف خدوخال رکھتے تھے۔ انگریز بہادر کی تربیت یافتہ بیوروکریسی اور روایتی طور پر خود کو برتر سمجھنے والی عسکری قوت نے کمزور سیاسی قیادت پر کاٹھی ڈال لی۔ اس گٹھ جوڑ میں انہیں جاگیرداروں اور قدامت پسند پیشوائیت کی تائید حاصل تھی۔پاکستان میں سیاسی عمل کی ٹوٹ پھوٹ اکتوبر 58ء سے نہیں، اگست 1947 ء ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ ’کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم‘۔عام طور سے تحکمانہ حکومتیں بیرونی سازش اور داخلی غداری جیسے جواز تراش کر اپنی کمزوریاں چھپایا کرتی ہیں۔ اس سے خود ترحمی اور مظلومیت کی چادر مہیا ہو جاتی ہے تاہم داخل کی کمزوریاں ایسی بہانہ سازی سے دور نہیں ہوتیں۔ ہم اپنی معاشی کمزوری ، سیاسی عدم استحکام اور تمدنی انحطاط کے خود ذمہ دار ہیں اور ستم یہ ہے کہ اب بھی شرح صدر کے ساتھ ماضی کی غلطیاں تسلیم کر کے اجتماعی سمت درست کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہم نے پاکستان پر جو ریاستی بندوبست مسلط کیا ہے وہ اس قوم کے سیاسی خمیر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ قومی ترقی کے لیے سیاسی عمل کی شفافیت ، درست معاشی ترجیحات اور عصری تقاضوں سے مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ ایک طرف دنیاکے معاشی اور تزویراتی خدوخال بدل رہے ہیں ، دوسری طرف ہم اپنی تاریخ کے ایک نئے مرحلے کی دہلیز پر ہیں۔ ہم سیاسی عمل کے جمود اور سیاسی قیادت کے انفعال کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ بندوبست میں ایک مختصر گروہ کو لامحدود معاشی مفادات حاصل ہیں لیکن اگر قوم کے درودیوار خستہ ہو جائیں گے تو ہم میں سے کون محفوظ رہ سکے گا۔ پچیس کروڑ لوگوں کی بنیادی ضروریات اوران کا معیار زندگی کچھ بنیادی فیصلوں سے بندھاہے۔ بدقسمتی سے ابھی اس سمت پیش رفت کے آثار نظر نہیں آرہے۔ خواجہ سعد رفیق نے دیگر دردمند شہریوں کی طرح اسی سمت توجہ دلائی ہے۔ قوم کو کبھی سی پیک ، کبھی بیرونی سرمایہ کاری اور کبھی نایاب معدنیات کے چراغ دکھا کر اندھیرے جنگلوں میں لے جانا درست حکمت عملی نہیں۔ ہوائیں تیز ہیں اور دن گزرتے جا رہے ہیں۔