عالمی سیاست میں بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جو محض تقریبات یا تقاریر تک محدود نہیں رہتے، بلکہ وہ آنیوالی دہائیوں کیلئے طاقت، اتحاد اور سمت کا تعین کر دیتے ہیں۔ استنبول شپ یارڈ میں صدرِ جمہوریہ ترکیہ رجب طیب ایردوان کی حالیہ تقریر بھی ایسا ہی ایک لمحہ تھی، جہاں انہوں نے دفاعی صنعت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف ترکیہ کی خودمختار عسکری قوت کا اعلان کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان ہمارا سچا اور کھرا اتحادی ملک ہے، اور پاک ترک دوستی قیامت تک قائم رہے گی۔یہ الفاظ کسی سفارتی مجبوری کا نتیجہ نہیں تھے، نہ ہی کسی وقتی سیاسی فائدے کیلئے ادا کیے گئے۔ یہ ایک ایسے قائد کے دل کی آواز تھی جس نے اپنی قوم کو دفاعی انحصار سے نکال کر خود کفالت، خود اعتمادی اور عالمی اثر و رسوخ کی راہ پر گامزن کیااور جسکے نزدیک پاکستان ایک اسٹریٹجک اتحادی ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی، تہذیبی اور ایمانی رشتہ ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کو اگر محض سفارتی لغت میں بیان کیا جائے تو یہ ان تعلقات کی توہین ہوگی۔ یہ رشتہ سفارت خانوں میں نہیں بنا، بلکہ تاریخ، قربانی اور مشترکہ احساسِ امت میں پروان چڑھا۔رجب طیب ایردوان کا دورِ حکومت ترکیہ کی تاریخ میں ایک واضح لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا دور جس میں ترکیہ نے دفاعی میدان میں بیرونی انحصار کو قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور اس انحصار کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ترکیہ کے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود ہتھیاروں پر پابندیوں کا سامناکرنا پڑا۔ یہ پابندیاں ترکیہ کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط بنانے کا سبب بنیں۔ صدر ایردوان نے فیصلہ کیا کہ ترکیہ اب ہتھیار نہیں مانگے گا، بلکہ خود بنائیگا اور دنیا کو فروخت کرے گا اور ایسا انہوں نے چند سال کے اندر اندر کرکے دنیا کو حیران کردیا۔
اب ترکیہ نہ صرف اپنے لیے بحری جہاز بنا رہا ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کیلئے بھی بحری جہاز تیار کررہا ہے۔ 2018 میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان طے پانیوالا MILGEM جنگی جہازوں کا معاہدہ پاک ترک دفاعی تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل ہے۔یہ محض چارجہازوں کی خریداری نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، مقامی شپ بلڈنگ کی بحالی،انجینئرنگ مہارت کی منتقلی اور طویل المدتی اسٹرٹیجک شراکت کا عملی مظہر ہے۔استنبول شپ یارڈ میں منعقد ہونیوالی تقریب محض نئے بحری جہازوں کی حوالگی کا موقع نہیں تھی۔ یہ تقریب درحقیقت تین بڑے پیغامات کا اعلان تھی ، نمبر 1-ترکیہ دفاعی صنعت میں عالمی سطح پر ایک سنجیدہ طاقت بن چکا ہے، نمبر2-پاکستان ترکیہ کا ترجیحی اور قابلِ اعتماد اسٹرٹیجک اتحادی ہے اور نمبر 3-پاک ترک دفاعی تعاون محض خرید و فروخت نہیں بلکہ مشترکہ صلاحیت سازی ہے۔صدر ایردوان نے نہایت فخر کیساتھ بتایا کہ آج دنیا میں صرف دس ممالک ایسے ہیں جو اپنے جنگی بحری جہاز خود ڈیزائن اور تیار کر کے سمندر میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ترکیہ ان میں شامل ہے۔ ترکیہ کی جانب سے پاکستان کیلئے تیار کیے جانے والےچار عدد جنگی جہازوں میں سے دو عدد ترکیہ میں تیار کیے گئے ہیں جبکہ دو عدد ترکیہ ہی کی نگرانی میں کراچی شپ یارڈ میں تیار کیے جا رہے ہیں۔یہ جنگی جہاز جدید سینسرز، ریڈار، اینٹی سب میرین وارفیئر، میزائل سسٹمز اور الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں سے لیس ہیں۔ انکی شمولیت سے پاکستان بحریہ ، اپنی ساحلی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر رہی ہے، بحیرہ عرب میں ڈیٹرنس کو مضبوط بنا رہی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو نئی شکل دے رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت اپنی بحری توسیع کے ذریعے بحرِ ہند کو یکطرفہ اثر و رسوخ میں لانا چاہتا ہے۔ایک ایسی دنیا میں جہاں بڑی طاقتیں دوہرے معیار اپناتی ہیں، پاکستان اور ترکیہ کا دفاعی اشتراک ایک نئے عالمی بیانیے کو جنم دے رہا ہے، ایک ایسا بیانیہ جس میں خودمختاری، شراکت اور باہمی احترام بنیادی اصول ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ترکیہ کو 52 عدد ٹریننگ طیاروں کی فراہمی اس دفاعی تعلق کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ یہ سودا محض تجارتی نہیں بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ترکیہ پاکستانی ایوی ایشن صنعت کو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار سمجھتاہے۔یہ پہلو اس تعاون کو یکطرفہ ہونے کے تاثر سے نکال کر برابری کی سطح پر لے آتا ہے۔اسی لیے صدر ایردوان نےاپنے خطاب میں پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے چلےآنیوالے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاک ترک دوستی تا قیامت پھلتی پھولتی رہےگی۔ صدر ایردوان کا یہ بیان محض ایک جذباتی اعلان نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک عہد ہے، ایسا عہد جو فولاد میں ڈھل چکا ہے، سمندروں میں تیر رہا ہے اور فضاؤں میں گونج رہا ہے۔یہ دوستی آنیوالی نسلوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب نیت صاف، قیادت مضبوط اور مقاصد مشترک ہوں، تو قومیں تاریخ کے دھارے کو موڑ دیتی ہیں۔