اقبال خوش قسمت تھے کہ اندلس کے قلب میں واقع شہر قرطبہ کے بیچوں بیچ بہتے دریائے وادی الکبیر کے کنارے ایک اور زمانے کا خواب دیکھ سکتے تھے۔ اقبال کی شاعری ایک تہ در تہ خواب کا پھیلاؤ ہے۔ اقبال کے خواب کا ایک کنارہ لاہور میں ہے تو دوسرا سرا شمالی افریقہ کے منطقوں تک پہنچتا ہے۔ اقبال کی آنکھ ایک طرف تہران کی قدیم گلیوں اور قاہرہ کے نیم تاریک بازاروں کا طواف کرتی ہے تو دوسری طرف وسطی ایشیا کے امکانات کی جستجو میں ہے۔ ولیم فاکنر نے کہا تھا کہ شاعر اور ادیب کو چاہئے کیا ہوتا ہے، کاغذ، قلم اور تھوڑا سا تمباکو۔ شاعر کا منصب اپنے احساس اور آرزو کو ’نظرے خوش گزرے‘ کی صورت کاغذ پر اتار لینا ہے۔ سیاست دان بھی خواب دیکھتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ سیاست دان کا خواب ایک امانت ہے اور امانت بھی ایسی کہ پہاڑ پر اتاری جائے تو سنگین چٹانیں غبار بن کر تحلیل ہو جائیں۔ سیاستدان کو انفرادی نفسیات اور اجتماعی رویوں کے بیچ راستہ بنانا پڑتا ہے۔ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حرف قانون سے پنجہ آزمائی کرنا ہوتی ہے۔ اپنے حامیوں کی تائید برقرار رکھتے ہوئے مخالفین سے مکالمہ کرنا ہوتا ہے۔ اپنے وطن کے حجم، محل وقوع، وسائل اور تاریخی تجربات کی روشنی میں بیرونی دنیا سے معاملہ کرنا ہوتا ہے۔ علم، صنعت و حرفت اور معیشت کے نودمیدہ امکانات کو اپنے حیطہ خیال میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ مخالفین کی چال سمجھنا پڑتی ہے، اپنے حامیوں کو حکمت عملی سمجھانا ہوتی ہے۔ دو روز قبل بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا 149واں یوم پیدائش گزرا۔ بے شک قائداعظم آج بھی قومی تاریخ کے واحد رہنما ہیں جن کی قیادت پر پوری قوم کا اتفاق ہے۔ اقبال تو پاکستان کے رسمی مطالبے سے دو برس قبل انتقال فرما گئے تھے۔ پاکستان کے خواب کے خدوخال استوار کرنے سے اسکی تعبیر تک کے مراحل قائداعظم کی قیادت میں طے پائے۔ کیوں نہ دیکھ لیا جائے کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اور ہم بانی پاکستان کی توقعات پر کہاں تک پورے اترے۔ قائداعظم ریاستی امور اور مذہب میں علیحدگی کے حامی تھے۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں اسلام یا اسلامی ریاست کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ قائداعظم سیاست میں مذہبی رنگ اختیار کرنے پر راجہ صاحب محمود آباد سے ناراض ہو گئے تھے۔ دسمبر 1947ء میں خالق دینا ہال کراچی میں ’پاکستان کا مطلب کیا‘ کے نعرے سے دوٹوک لاتعلقی کا اظہار کیا۔ 1948ء میں ہاشم گزدر کے ہمراہ ایک سندھی وفد سے زیارت میں ملاقات کے دوران مذہب اور سیاست کو ایک ہی چیز قرار دینے سے برملا اختلاف کیا۔ محمود اے ہارون کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے کبھی ’قرآن اور سنت‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اسلام کے بنیادی اصولوں جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے فروری 1948ء میں امریکی عوام سے ریڈیائی خطاب میں واضح طور پر کہا کہ پاکستان میں مذہبی پیشوائیت نہیں ہو گی۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر کا یہ جملہ تو ناقابل تردید ہے کہ ’آپ کے مذہب کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم سب ایک ریاست میں برابر کے شہری ہیں‘۔ بانی پاکستان کے ان افکار کی روشنی میں ملاحظہ کیجیے کہ ہم نے قائداعظم کا خواب کیسے مسخ کیا۔ قائداعظم کے مطابق پاکستانی ریاست کا اولین فرض یہاں کے عوام کی بہبود بالخصوص غریبوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا تھا۔ آج پاکستان میں 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ تعلیم، صحت اور معیشت کے تمام بنیادی اشاریوں پر قوم خود جنوبی ایشیا میں بھی پسماندہ ہے۔ قائداعظم نے دسمبر 1938ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں قومی زندگی میں عورتوں کی بھرپور اور مساوی شرکت کی زوردار حمایت کی۔ 2025ء میں 148ممالک کے دستیاب اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان صنفی مساوات میں سب سے نچلے درجے یعنی 148پر ہے۔ قائداعظم نے 21مئی 1947ء کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل کو انٹرویو میں کہا تھا۔ Government of Pakistan can only be a popular, representative and democratic form of Government ۔ پاکستان آنے سے قبل دہلی میں جنرل شاہد حامد کے گھر پر مسلم افسروں سے ملاقات میں قائداعظم نے صاف کہا کہ جسے جمہوری اصولوں سے اختلاف ہے، وہ پاکستان کا رخ نہ کرے۔ قائداعظم کےپاکستان میں ہم نے جمہوریت کی جو مٹی پلید کی، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ قائداعظم پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے صاف صاف کہا۔ ’پاکستان کے تمام شہری ایک جیسے حقوق، مراعات اور فرائض کے حامل ہوں گے‘۔ ہم نے پاکستان میں کتاب قانون اور سماجی زندگی میں اقلیتوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بنا کے رکھ دیا۔ قائداعظم شہری آزادیوں اور پریس کی آزادی کے علمبردار تھے۔ ہم نے ابتدا ہی سے شہری آزادیوں اور آزاد صحافت کو ریاست دشمنی پر محمول کیا۔ قائداعظم نے 14اپریل 1948ء کو پشاور میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں عوام کا خادم قرار دیا۔ 14جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں کو ان کا حلف پڑھ کے سنایا اور سویلین بالادستی واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’فیصلہ سازی کا اختیار سیاسی حکومت اور عوامی نمائندوں کا ہے۔ آپ کو قومی پالیسی بنانے کا حق نہیں‘۔ ایئر مارشل اصغر خان نے گواہی دی ہے کہ قائداعظم نے کرنل اکبر خان کو ڈانٹ کر کہا تھا کہ ’حکومتی فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ فوج کا فرض عوامی نمائندوں کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔‘ ہم نے ایسے نابغے دریافت کئے جنہوں نے کھلے عام عوام کے حق حکمرانی اور آئین کی بے حرمتی کی۔ ہم نے قائداعظم کے تین بنیادی اصولوں یعنی ’اتحاد، یقین اور نظم و ضبط‘ کی ترتیب اور لغت تک بدل ڈالی۔ اقبال نے آب رواں کبیر کے کنارے جو خواب دیکھا تھا اور بابائے قوم قائداعظم نے اس خواب کو جو آئینی اور سیاسی شکل دینا چاہی تھی ہم نے اس سے یکسر انحراف کیا ہے۔ بے شک ہماری اس کوتاہی پر آب رواں شرمندہ ہے اور ہماری ناؤ کا پون صدی پر محیط سفر ایک مسلسل رائیگانی کی داستان ہے۔