روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی سردی کوئی موسم نہیں، یہ انسان کی اصل شخصیت سامنے لانے کا ذریعہ ہے۔ گرمی میں تو ہر شخص مہذب، خوش اخلاق اور انسان دوست ہوتا ہے، مگر سردی آتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کون واقعی اچھا انسان ہے اور کون محض گرمی کی وجہ سے اچھا بنا ہوا تھا۔ سردی میں اخلاق کمبل کے نیچے چلے جاتے ہیں اور انسان صرف اپنی بقا پر توجہ دیتا ہے۔سردی شروع ہوتے ہی سب سے پہلے نیتیں بدلتی ہیں۔ جو لوگ کہتے تھے کہ “صبح جلدی اٹھنا اچھی عادت ہے”، وہی لوگ سردی میں اعلان کرتے ہیں کہ’’اصل عبادت نیت کی ہوتی ہے، عمل کی نہیں۔‘‘ الارم گھڑی بجتی ہے، مگر انسان اسے ایسے نظرانداز کرتا ہے جیسے حکومت عوام کے مسائل کو۔ کمبل سردی میں محض کمبل نہیں رہتا، یہ ایک ریاست بن جاتا ہے۔ اسکے اندر اپنے اصول، اپنا آئین اور اپنا وقت ہوتا ہے۔ کمبل کے اندر لیٹا انسان وہ خواب دیکھتا ہے جو جاگتے میں دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کمبل کے اندر انسان شاعر بھی ہوتا ہے، فلسفی بھی، اور بعض اوقات وزیراعظم بھی۔ سردی میں نہانا ایک انقلابی عمل بن جاتا ہے۔ جو شخص سردی میں نہا لے، اس کے بارے میں گھر والے یہی کہتے ہیں:’’یہ بچہ کچھ بنے گا!‘‘سردیوں میں گیلا تولیہ کندھوں پر رکھنا ایسا لگتا ہے جیسے انسان نے خود پر ظلم کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہو۔ نل کھولنے سے پہلے انسان ایسی دعائیں مانگتا ہے جو عام دنوں میں صرف امتحان کے نتیجے سے پہلے مانگی جاتی ہیں۔ سردی میں چائے کو غیرمعمولی اختیارات مل جاتے ہیں۔ چائے نہ صرف جسم کو گرم کرتی ہے بلکہ گفتگو کو بھی چلنے کے قابل بناتی ہے۔ بغیر چائے کے سردیوں کی بات چیت ایسے لگتی ہے جیسے بغیر پیٹرول کے موٹر سائیکل۔ چائے کی پیالی کیساتھ ہی انسان کو لگتا ہے کہ زندگی اب بھی کسی حد تک قابلِ برداشت ہے۔سردی میں ناک ایک الگ ہی مخلوق بن جاتی ہے۔ کبھی بہتی ہے، کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی ایسی آوازیں نکالتی ہے کہ انسان خود کو ایک پرانا ہارمونیم سمجھنے لگتا ہے۔ رومال اگر جیب میں نہ ہو تو انسان سماجی طور پر غیر ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔لباس کے معاملے میں سردی انسان کو پیاز بنا دیتی ہے۔ تہہ پر تہہ، سویٹر پر سویٹر، اور آخر میں کوٹ۔ انسان چلتے ہوئے کم اور لڑھکتے ہوئے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو آدمی خود کو آئینے میں دیکھ کر سوچتا ہے کہ اگر اس حالت میں کوئی جانور حملہ کرے تو وہ کنفیوژ ہو جائے گا۔ سردی میں مہمان سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ وہ آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، اور جانے کا نام نہیں لیتے، جبکہ میزبان کمبل کو ترستی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مہمان کے سامنے انسان گرمجوشی دکھاتا ہے، مگر دل کے اندر سردی کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔سردی میں بچے سب سے بڑے فلسفی بن جاتے ہیں۔ اسکول نہ جانے کے لیے ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں کہ اگر یہی دلائل اقوامِ متحدہ میں دیے جائیں تو جنگیں رک جائیں۔’’امی! سردی میں تعلیم دماغ میں نہیں جاتی!‘‘اور امی کا تاریخی جواب:’’ہم تو برف میں ننگے پاؤں اسکول جاتے تھے!‘‘سردی میں غریب اور امیر برابر ہو جاتے ہیں، کیونکہ سردی کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ امیر ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر کانپتا ہے اور غریب رضائی کے اندر۔ سردی کا انصاف بڑا بے رحم مگر مساوی ہوتا ہے۔سردی میں دوستیاں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ فون پر سب کہتے ہیں:’’یار ملتے ہیں!‘‘مگر ملنے کی تاریخ ہمیشہ موسمِ گرما میں ڈال دی جاتی ہے۔ سردی میں ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے واقعی دوستی نبھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔سردی انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کمبل کے اندر لیٹا آدمی زندگی کے وہ سوال پوچھتا ہے جن کے جواب گرمی میں ضروری نہیں لگتے ۔ مثلاً:’’آخر ہم کیوں پیدا ہوئے؟‘‘،’’چائے ختم کیوں ہو گئی ہے؟‘‘اور’’نلکا اتنا ٹھنڈا کیوں ہے؟‘‘الغرض، سردی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی آسان نہیں، مگر کمبل، چائے اور تھوڑی سی ہمت کے ساتھ گزار ی جا سکتی ہے۔ سردی میں جو لوگ مسکرا لیتے ہیں، وہ دراصل زندگی کے اصل امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں۔اور آخر میں، سردی کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیں تکلیف ضرور دیتی ہے،مگر کمبل کی قدر، چائے کی محبت،اور نہانے کی قربانی کا شعور بھی یہی دیتی ہے۔’’سردی اگر نہ ہوتی تو انسان کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ کمبل سے بھی محبت ہو سکتی ہے۔‘‘