قوموں کی تاریخ میں بعض سال محض تاریخ کا حصہ نہیں بنتے بلکہ وہ ریاستی شعور، قومی وقار اور عالمی مقام کی ازسرِنو تشکیل کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ 2025 ء پاکستان کیلئے ایسا ہی ایک سال بن کر ابھرا ۔ یہ سال نہ صرف عسکری اعتماد کی بحالی کی علامت تھا بلکہ سفارتی توازن، عالمی ساکھ اور اسٹرٹیجک خود اعتمادی کے ایک نئے باب کا نقطۂ آغاز بھی تھا ۔ برسوں سے پاکستان کو جن داخلی کمزوریوں، معاشی دباؤ اور عالمی بیانیاتی یلغار کا سامنا رہا، 2025ء نے ان تمام تصورات کو چیلنج کیا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان اب ایک ردِعمل دینے والی ریاست نہیں بلکہ اپنے فیصلے خود کرنیوالی ایک سنجیدہ ، ذمہ دار اور مؤثر طاقت ہے۔
چار روزہ جنگ کے دوران پاکستانی افواج نے جس پیشہ ورانہ مہارت، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا، وہ کسی فوری ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کی منصوبہ بندی، تربیت اور اسٹرٹیجک وژن کا عملی مظاہرہ تھا۔ محدود وسائل کے باوجود مؤثردفاع، درست اہداف کاانتخاب اور شہری نقصانات سے اجتناب نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کی عسکری حکمتِ عملی جارحیت کے بجائے توازن اور ڈیٹرینس پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چار روزہ جنگ کے اثرات محض جنوبی ایشیا تک محدود نہ رہے بلکہ عالمی طاقتوں، دفاعی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا میںبھی پاکستان کے بارے میں رائے یکسر تبدیل ہو گئی۔ عالمی دفاعی ماہرین نے اس امر کو خاص طور پر سراہا کہ پاکستان نے کشیدگی کو دانستہ طور پر کنٹرول میں رکھا اور جنگ کو پھیلنے سے روکا۔ یہ رویہ پاکستان کو ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے طور پر مزید مستحکم کرتا ہے۔ اسی لیے 2025 ءکو کئی عالمی تجزیاتی اداروں نے پاکستان کیلئے عسکری اعتماد کی بحالی اور اسٹرٹیجک کم بیک کا سال قرار دیا۔ 2025ءمیں پاکستان کے حوالے سے عالمی میڈیا کا لہجہ نمایاں طور پر تبدیل نظر آتا ہے۔ امریکی، برطانوی، یورپی اور ایشیائی جرائد میں شائع ہونیوالے تجزیے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ پاکستان کو اب عدم استحکام یا داخلی بحران کے تناظر میں نہیں بلکہ ایک منظم، پُراعتماد اور فیصلہ کن ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چار روزہ جنگ کے بعد پاکستان کی سب سے اہم سفارتی پیش رفت واشنگٹن میں پالیسی توازن کی تبدیلی ہے۔ امریکی سیاسی اور اسٹرٹیجک حلقوں میں یہ احساس دوبارہ مضبوط ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا استحکام پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان کو ایک بار پھر ایک قابلِ اعتماد اور نتیجہ خیز شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کردار اس پس منظر میں مرکزی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں عسکری سطح پر اعتماد کی بحالی، انسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور خطے کے وسیع تر اسٹرٹیجک توازن پر ہم آہنگی نے پاکستان کی آواز کو واشنگٹن میں ایک بار پھر موثر بنا دیا ہے۔ اسکے برعکس بھارت تجارتی دباؤ، ٹیرف تنازعات اور سفارتی سرد مہری کا سامنا کر رہا ہے، جو اسے عالمی سطح پر دفاعی پوزیشن میں لے آئی ہے۔
چار روزہ جنگ کے بعد پاکستان کیلئے سب سے نمایاں اور دور رس پیش رفت عالمِ عرب میں اسکے وقار اور اسٹرٹیجک اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ سعودی عرب، مصر، لیبیا، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں جو گرمجوشی اور اعتماد نظر آتا ہے، وہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اب محض ایک دوست ملک نہیں بلکہ ایک کلیدی اسٹرٹیجک شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون، مشترکہ عسکری مشقیں، انٹلیجنس شیئرنگ اور علاقائی استحکام پر ہم آہنگی نے پاکستان کو عرب دنیا میں ایک مرکزی مقام عطا کیا ہے۔
چار روزہ جنگ کے بعد پاکستان کی دفاعی صنعت کو عالمی سطح پر نئی شناخت ملی۔ پاکستانی دفاعی سازوسامان اور نظاموں کی عملی کارکردگی نے نہ صرف دوست ممالک بلکہ عالمی دفاعی منڈی کی توجہ بھی حاصل کی۔ چین کی جانب سے اطمینان کا اظہار، مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتا ہوا دفاعی تعاون اور علاقائی معاہدے اس اعتماد کا عملی ثبوت ہیں۔اسی تناظر میں بن غازی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر اور لیبین نیشنل آرمی کے ڈپٹی کمانڈر انچیف صدام خلیفہ حفتر کے درمیان چار ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے پر دستخط پاکستان کی دفاعی اور معاشی سفارت کاری کا ایک اہم سنگِ میل ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور دیگر عالمی دارالحکومتوں میں پاکستان کے حوالے سے جو مثبت فضا قائم ہوئی، اس میں وزیراعظم شہباز شریف کی سیاسی بصیرت، معاشی ترجیحات اور خارجہ پالیسی میں توازن کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے عالمی قیادت کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان محاذ آرائی نہیں بلکہ استحکام، تعاون اور ذمہ دارانہ طاقت کے تصور کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
آج عالمی نظام میں پاکستان کو ایک بار پھر سنجیدگی سے سنا جا رہا ہے۔ چار روزہ جنگ کے بعد پاکستان نے نہ صرف عسکری میدان میں اپنی صلاحیت ثابت کی بلکہ سفارتی، اخلاقی اور اسٹرٹیجک محاذ پر بھی خود کو منوایا۔ عالمی جرائد کی مثبت کوریج، واشنگٹن میں بحال ہوتا ہوا اعتماد، عالمِ عرب میں بڑھتی ہوئی پذیرائی اور دفاعی شراکت داریوں کا فروغ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان ایک نئے عالمی کردار میں داخل ہو چکا ہے۔ اگر یہی سمت، یہی ہم آہنگی اور یہی اعتماد برقرار رہا تو 2025 ء محض ایک خوش قسمت سال ہی نہیں بلکہ پاکستان کے طویل المدتی استحکام، ترقی اور عالمی احترام کی بنیاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔