• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دسمبر کا آخری دن ہے۔ آج محض 2025ء کا برس ختم نہیں ہوا، ایک ربع صدی مکمل ہوئی ہے۔ اس عرصے میں زمانے نے کیا رنگ بدلے، علم کی کون سی منزلیں طے کیں۔ سیاست کن گھاٹیوں سے گزری، معاشرت کے خد و خال کیسے بدلے، یہ سب ہم سے بہت دور کسی اجنبی سیارے کی باتیں ہیں۔ ہم پدر سوختہ، آوارہ نصیب تو دوسری عالمی جنگ کے ان جاپانی سپاہیوں کی طرح اندھیرے جنگلوں میں روپوش ہیں جنہیں برسوں خبر نہیں ہوئی کہ ہیروشیما اور ناگاساکی صفحہ ہستی سے معدوم ہو گئے ہیں۔ شہنشاہ ہیروہیٹو جنرل میکارتھر کیساتھ چائے نوش فرما رہے ہیں نیز یہ کہ جاپان جنگجوئی ترک کر کے جمہوری بندوبست اور صنعتی پیداوار کے بل پر 1970ء میں دنیا کی تیسری اور 1990ء میں دوسری بڑی عالمی معیشت بن چکا ہے۔ ہم نے تو کاغذ پر حرف کشی میں درک پایا ہے اور اس میں بھی آج کے علم و ادب سے ہمارا تعلق نہیں۔ ہماری آنکھ تو ڈیڑھ صدی قبل سر سید احمد خان پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ ’برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراؤنی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔‘ پھر 1940ء کا دسمبر آیا۔ 27سالہ قیوم نظر نے ’نیا سال‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ ’عمر رواں نے اک جھٹکا سا کھایا / اور اک سال گیا‘۔ کئی دہائیوں بعد انیس ناگی نے لکھا، ’اس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔‘ رواں صدی پرویز مشرف کے پی سی او کے سائے میں شروع ہوئی۔ نو برس کی اس آزمائش میں وائسرائے شوکت عزیز نے بھی سوا تین برس اسلام آباد میں قلفی کا لطف اٹھایا۔ وزارت عظمیٰ ختم ہوئی تو ایسے اڑنچھو ہوئے جیسے سرکاری اہلکار تبادلہ ہونے کے بعد پرانے دفتر میں نظر نہیں آتا۔ سیاست دان البتہ ایک اور نوع کی مخلوق ہے۔ سیاست وہ امانت ہے جو سانس کے دھاگے سے بندھی ہے۔ اس میں سبکدوشی نہیں ہوتی اور نہ سیاست دان اہل وطن کے دکھوں سے دستبردار ہوتا ہے۔ اس قبیلے میں متبادل قیادت کے نام پر نمودار ہونے والوں کا ذکر نہیں جو ہوا کو ناموافق پا کر اپنی پتنگ بغل میں دبائے طویل مراقبے میں چلے جاتے ہیں اور پھر کسی روپہلی صبح نیا آموختہ لیے برآمد ہوتے ہیں۔ بانگی ملاحظہ کیجئے۔ چوہدری نثار علی خان، سیف الرحمن، شوکت عزیز، باقر رضا، عثمان بزدار، خسرو بختیار، فیاض الحسن، جہانگیر ترین، محمد علی درانی.....یہ فہرست لامتناہی ہے۔ علامہ سند باد جہازی (جدید) نے فرمایا ہے کہ ملا ملٹری الائنس فطری ہے۔ علامہ کے انفس و آفاق ہم خاک نشینوں کی حد نظر سے پرے ہیں۔ فطری اور غیر فطری کی بحث انہیں زیب دیتی ہے۔ علامہ کو اختیار ہے کہ10اپریل 2022ء کو حکومت کے روحانی معاملات کے مہتمم ہوں اور اگلے روز نئی حکومت میں بھی اسی مسند کو رونق بخشیں۔ عسکری معاملات کم عقل شہریوں کے دائرہ فکر سے پرے ہیں ۔ ملا کے بارے میں البتہ علامہ کی رائے درست ہے۔ تحریک آزادی میں علمائے پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا لہٰذا علامہ کشتیوں کے اس شکستہ پل پر جہاں چاہیں، درشن دیں۔ وقت تماشائی ہے اور تماشے کا کوئی منظر مستقل نہیں ہوتا۔

اب ایک نظر اس ربع صدی میں انسانی ترقی پر ڈالیے۔ 2001ء کے بعد سے ڈیڑھ ارب انسانوں نے غربت کی لکیر سے نجات پائی ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ معجزہ پہلی بار ہوا ہے۔ 1900ء میں کل عالمی آبادی ڈیڑھ ارب سے کچھ اوپر تھی۔ غربت سے نکلنے والوں کی بڑی تعداد چین، بھارت، انڈونیشیا، برازیل اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ پچیس برس ٹیکنالوجی کی دنیا میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت میں ناقابل یقین ترقی سے عبارت ہیں۔ طبی سائنس نے ڈی این اے اور جینز کی تفہیم نیز مصنوعی اعضا اور Stem cell کے شعبوں میں نئی بلندیاں سر کی ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے آئندہ انسانی تاریخ کے بارے میں پیش بینی کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ خلا کی تسخیر میں نئے آفاق تسخیر ہوئے ہیں۔ جہاں موسمی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہاں پیشہ ورانہ طور طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ چین نے صرف بیس برس میں انتہائی تیز رفتار ریلوے لائنوں کا جال پچاس ہزار کلومیٹر تک پھیلا دیا ہے۔ آبادی میں پھیلاؤ نے Generation Gapکے خد و خال بدل دیے ہیں۔ ایک طرف سرمائے نے جمہوریت کے پیروں میں زنجیر ڈال دی ہے دوسری طرف عورتوں اور رنگ دار نسلوں نے عالمی فیصلہ سازی میں نئے امکانات کے در کھولے ہیں۔ متبادل توانائی کا انقلاب دستک دے رہا ہے جس سے سیاست اور معیشت کا عالمی نقشہ بدل جائے گا۔ یہ محض پچیس برس میں دشت امکاں پر ابھرنے والے چند نقش قدم ہیں۔ اس دوران پاکستان میں سیاسی قیادت نے 14 مئی 2006ء اور 19اپریل 2010ء کو دو قدم اٹھائے تھے جنکا تاوان میمو گیٹ سکینڈل، دھرنوں، پاناما گیٹ، ڈان لیکس اور ہائبرڈ رجیم کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔ قوم کے جسد اجتماعی میں سیاسی شعور کا حیات بخش چشمہ خشک ہو گیا ہے۔ یمین و یسار میں سیاسی قوتیں مفلوج ہیں یا معتوب ہیں۔ صحافت ان دیکھے دھاگوں کی جنبش پر کٹھ پتلی بن چکی۔ داخلی اور بیرونی محاذ پر قابل قیاس پالیسی کا نام و نشان نہیں۔ مئی 2025ء میں بھارت کے ساتھ فوجی تصادم کے بعد نئے مناظر نے جنم لیا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ برس کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 26 فیصد کم ہوئی ہے۔ موسم سرما میں اجنبی ساحلوں سے اترنے والے پرندے تو کم کم نظر آتے ہیں، دارالحکومت سے البتہ رنگارنگ کبوتروں کی ٹکڑیاں وقفے وقفے سے فضا میں بلند ہوتی ہیں۔ صاحبان خبر کہتے ہیں کہ ان کبوتروں کے پیروں میں بندھے آلات خوشگوار پیغامات نشر نہیں کر رہے۔ ٹھیک سات عشرے قبل ہم نے مغربی پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو ون یونٹ کی شکل دیکر وفاق پاکستان کو نقصان پہنچایا تھا۔ آج کے مجمع باز چار وفاقی اکائیوں کی بنیاد پر بچھائی جانے والی آئینی بساط کے درپے ہیں۔ دنیا علم میں آگے بڑھ رہی ہے۔ معیشت کی ترتیب نو پر عرق ریزی کر رہی ہے۔ ہمارے بیچ سے وہ نجومی ہی اٹھ گیا ہے جو نئے سال کے اچھا ہونے کی خبر دیا کرتا تھا۔

تازہ ترین