جب افغانستان میں صدارتی الیکشن میں دھاندلی کا شور اٹھا اور عبداللہ عبداللہ نے الیکشن کے نتائج ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں متوازی حکومت بنائی جائے گی کابل میں احتجاج ہونے لگا امریکہ کی وزارت خارجہ اور پینٹگان کے دفا عی امور کے ماہرین میں کھلبلی مچ گئی۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال امریکہ اور یورپی حلیفوں کی وہاں متعین افواج کے لئے تباہ کن ہوسکتی تھی اور اس سے امریکی حکمت عملی تہس نہس ہوجاتی اور امریکی افواج کا انخلا رکاوٹوں اور مشکلات کی نذر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ جون کیری تمام مصروفیات چھوڑ کر کابل پہنچے تاکہ فریقین میں صلح صفائی کرائی جائے تاکہ امریکی مفادات کو تباہی سے بچایا جائے۔ انہیں افغانستان کی فکر نہیں ہے انہیں اپنے مفادات کی فکر ہے۔کابل پہنچ کر انہوں نے ہر قسم کا دبائو ڈالا اور آخرکار انہوں نے صدر کرزئی اور دونوں صدارتی فریقوں کو اس پر رضامند کرلیا کہ انتخابات کا نئے سرے سے آڈٹ کرایا جائے گا اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ امریکہ کی اسٹرٹیجک مداخلت نے صورت حال کو مزید بگڑنے سے ظاہر میں تو بچالیا ہے۔ لیکن کیا وہ افغان طالبان کی کارروائیوں سے بھی بچ سکے گا۔ میرے خیال سے تو نہیں بلکہ طالبان کا دبائو اب کابل پر تیزی سے بڑھے گا امریکہ نے ایک دفعہ پھر پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ صورت حال کا خود ہی مقابلہ کرے اور وہ افغانستان سے نکل بھاگے۔جو کچھ نظر آرہا ہے وہ بھی ہو رہا ہے اور جو کچھ نظر نہیں آرہا ہے وہ بھی ہورہا ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے اس سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بھی بڑی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں پہلے عمران خان پنجاب کی چار نشستوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن لندن سے واپسی پر ان کا لہجہ بدل گیا ہے اور وہ بہت aggressive نظرآرہے ہیں 16؍جولائی کے روزنامہ جنگ میں ان کا بیان شائع ہوا ہے جس کی سر خی ہے ’’چار حلقوں کا کھیل ختم، اب پورے الیکشن کا آڈٹ کرایا جائے‘‘۔درحقیقت یہ افغانستان میں امریکہ کے اشاروں پر ہونے والی صلح کا ردعمل ہے۔ حکومت کیلئے زیادہ پریشان کن سابق صدر آصف زرداری کا بیان ہونا چاہئے جنہوں نے تحریک انصاف کے مطالبے کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ ایک نئی صورت حال ہے زرداری صاحب کسی اور نظر سے معاملے کو دیکھ رہے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو زیادہ سیاسی ماہر ثابت کیا ہے انہوں نے بہت سے نامساعد حالات میں اپنے دور صدارت کو پورا کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سیاسی ٹیم میاں صاحب سے بہتر تھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جب سیاستداں اقتدار میں آجاتے ہیں تو وہ کسی کی سنتے نہیں ہیں جو آج میاں صاحب کے ساتھ ہیں یہ ان کی کچن کیبنٹ کہلاتی تھی اور ان کے غلط راہ دکھانے کی وجہ سے میاں صاحب پہلے بھی ناکام ہوئے تھے۔ میں نے اپنے 3؍جولائی کے کالم میں لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات‘‘ موجودہ وزیراعظم کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے لیکن وہ اس بات سے خوفزدہ سے لگتے ہیں کہ کہیں حکومت نہ چلی جائے مخالفین کے بقول ان کے یہ الفاظ ہی اس بات کی اور اندیشے کی غمازی کرتے ہیں ’’کہ اگر ہمیں پانچ سال حکومت کرنے دی گئی تو ہم ملک کی قسمت بدل دیں گے‘‘۔یہ الفاظ حکومت کی کمزوری ظاہر کرتے ہیں جو صورت حال نظر آرہی ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ ہے وہ الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن اب سیاسی منظر ایکدم بدل گیا ہے اور ان کے مخالفین جمع ہورہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری اگر اسلام آباد میں لینڈ کرجاتے تو کونسی قیامت آجاتی ان کا لاہور میں اترنا زیادہ نامناسب تھا یہ حکومت سے بڑی غلطی ہوئی خود ان کی پارٹی میں گروہ بندی اور اختلافات موجود ہیں لاکھ وہ کہیں کہ نہیں ہیں لیکن ہیں اب یہ ایک بالکل کھلا ہوا منظر ہے بہت جلد بس ایک مطالبہ رہ جائے گا مڈٹرم الیکشن کا۔ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تو کردیا گیا ہے۔یہ اتنی حیرت کی بات ہے کہ آصف زرداری جیسا شخص جس نے اپنے اسٹرٹیجک سیاست کار ہونے کا ثبوت اس وقت سے دیا ہے جب وہ سابق صدر پرویز مشرف سے ڈیل کیلئے رہا کیا گیا تھا یہ بات میں آج نہیں کہہ رہا میں نے اس وقت اپنے اس کالم میں جس کا عنوان تھا ’’ڈیل تو اب ہوگی‘‘ لکھا تھا جب آصف زرداری صاحب کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ اب یہ حقیقت جلد ہی سامنے آجائے گی۔ آصف زرداری کا لہجہ یہی بتاتا ہے اور زرداری کا دبائو نواز لیگ کی حکومت کو بند گلی میں لے جائے گا۔میاں نواز شریف کیلئے یہ ذرا مشکل وقت ہے ان کی حکومت پر شدید دبائو ہے اور یہ ابھی مزید بڑھے گا اور ابھی تو امریکہ کا دبائو بھی پاکستان پر بڑھایا جائے گا اس کی ابتداء گزشتہ سالوں سے ہو چکی ہے اور آپ نے یہ خبر ضرور پڑھی ہوگی کہ امریکہ نے پاکستان کو ’’ہیلی کاپٹر دینے سے انکار کردیا ہے یہ امریکہ اور پاکستانی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی طرف صاف صاف اشارہ ہے۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے اس خطرناک صورت حال سے نکلنے کے لئے اسٹرٹیجک مدد طلب کرسکتا ہے اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں لیکن پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ افغانستان میں کوئی کردار ادا کرسکے میرے خیال میں تو نہیں ہے پاکستان کے سیاسی لیڈر خود سیاسی طور پر تقسیم ہورہے ہیں اور حکومت کے خلاف مورچہ بندی کررہے ہیں۔ یہ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھا تھا۔اس وقت امریکہ کیلئے اور خود پاکستان کیلئے شمالی وزیرستان کا آپریشن ضروری ہے پاکستان دفاعی حکمت عملی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے مقاصد حاصل کرکے ہی آپریشن ختم کرے گا۔ جو دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے ہیں وہ امریکی دفاعی لائن کیلئے خطرہ ہیں افغانستان میں جو افراتفری ہے اس کا فائدہ طالبان کو ہوگا۔پاکستان اپنے آپ کو امریکی ریشہ دوانیوں سے اسی وقت محفوظ رکھ سکتا ہے جب اس کی قیادت سیاسی نشیب و فراز چکروں کے سمجھتی ہو اس وقت پاکستان کو وژنری قیادت کی ضرورت ہے ایک عام ذہنی سطح کی قیادت آنے والے دنوں میں بیرونی قوتوں کے دبائو کو FACE نہیں کرسکے گی۔ اس بات کو آصف علی زرداری نے محسوس کرلیا ہے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پنجاب پاور انجن ہے اور اہم صوبہ ہے آصف علی زرداری نے ایک اسٹرٹیجک لمحے پر اپنا موقف بدلا ہے اور یہ موقع حکومت نے خود فراہم کیا ہے۔
قیادت اگر پیش بینی کا وژن رکھتی ہو تو وہ کیا سے کیا کر گزر سکتی ہے ہمارے سامنے ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان کی مثال ہے کہ انہوں نے کس طرح ترکی میں معاشی اور سیاسی انقلاب برپا کردیا آج ترکی یورپ کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اس نے اپنی قومی قوت کو اور جمہوری ساکھ کو دنیا سے منوالیا ہے۔
آپ کو پتہ ہے کہ یہ طیب اردگان کون ہے یہ کوئی صنعت کار اور سرمایہ دار نہیں ہے یہ گلیوں میں لیموں بیچنے والا وینڈر ہے یہ ٹھیلے پر لیمو بیچا کرتا تھا لیکن اس کے دل میں قوم کا درد تھا اس نے تعلیم حاصل کی اور اپنی کوشش سے اقتدار کی کرسی پر پہنچا اس نے جدید ترکی کا وہ خواب جو کمال اتاترک نے دیکھا تھا اس کو عملی شکل دی اور ترکی کو جدید جمہوریہ بنادیا عوام کی عملداری کو بالادستی دلائی اور عسکری بالادستی کو قوت کا توازن آئین کے ذریعہ دلایا۔ آج ترکی علاقہ کا طاقتور ترین ملک ہے اور ہر طرح سے مستحکم ہے۔