• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زہرہ سہگل نے 102سال زندگی پائی۔زندگی کے آخری لمحے تک حرکت میں رہیں۔یہ وہی زہرہ سہگل ہیں جو1935میں اودے شنکر کے گروپ میں شامل تھیں انکے ساتھ کیروگرافی اور ڈانس سیکھتی تھیں ۔ زہرہ آپا کی پیدائش1912میں سہارنپور میں ہوئی۔ ان کے والد ممتاز اللہ خاں نے پڑھے کے لئے علی گڑھ بھیجا۔ جب ان کو ڈانس سیکھنے کا شوق ہوا تو وہ اپنی چھوٹی بہن عذرابٹ کے ساتھ بمبئی سے پانی کے جہاز میں بیٹھ کر لندن گئیں۔ وہ آٹھ سال تک اودے شنکرکی شاگردرہیں۔ واپس لوٹیں تو عذرا بٹ اور زہرہ سہگل نے پرتھوی راج کپور کے اسٹوڈیو میں ملازمت کرلی۔پرتھوراج کپور عذرا بٹ کے بڑے مداح تھے۔ یہ دونوں خوبصورت بہنیں اسی زمانے میں بننے والی فلموں میں کام کیا کرتی تھیں۔
زہرہ آپا سے میری ملاقات گزشتہ تیس برس سے تھی۔ وہ مدیحہ گوہر کے بلاوے پہ لاہور آتی تھیں۔ دونوں بہنیں مل کر ڈرامہ کرتی تھیں۔ اپنی زندگی کے حوالے سے ۔ کیسے برقعے میں بمبئی تک آئیں کس طرح مشکلوں کے ساتھ اودے شنکر سے رابطہ ہوا کیسے بی ۔اے کوئین میری کالج سے کیا ۔ ایک بات بہت اچھی تھی۔ پہلے لندن کے دورے پر وہ اپنے ماموں کے ساتھ گئیں ابا کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔اودے شنکر کے ڈانس گروپ کے ساتھ پورے ہندوستان میں پر فارمنس کی۔والدین کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔بعد ازاں14سال تھیٹر میں کام کیا ان کے ساتھ کام کرنے والوں میں کمیشور بھی تھے ۔ کمیشور، زہرہ آپا سے پانچ برس چھوٹے تھے شادی بھی خاندان کی مرضی سے ہوئی۔ اس طرح عذرابٹ جو کہ مستقل پرتھوی راج کپور کے تھیٹر میں کام کرتی تھیں۔ کلکتہ میں ان کی ملاقات ان کے شوہر حمید بٹ سے ہوئی۔دونوں نے شادی کرلی قیام پاکستان کے بعد، عذرا بٹ پاکستان آگئیں اور راولپنڈی میں سسرال کے گھرانے کے ساتھ رہنے لگیں مگر ڈراموں میں کام کرنا نہ چھوڑا۔ پاکستان آنے کے بعد۔ دو پٹرول پمپ ان کے نام الاٹ ہوگئے ۔ بدقسمتی یہ کہ بٹ صاحب کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اب وہی ہوا جو سسرال والے کیا کرتے ہیں۔ گھر سے لیکر پیڑول پمپ تک سب کچھ چھین لیا گیا ۔ بے آسرا لاہور آگئیں اور اپنی بڑی بہن صابرہ اعظم کے ساتھ رہنے لگیں ۔ صابرہ آپا، کھیلوں کے ٹریننگ کالج کی پرنسپل تھیں۔ لاہور آنے کے بعد مدیحہ گوہر کے اجو کا تھیٹر سے منسلک ہوگئیں اور آخری سانس تک اسکے ساتھ ہی کام کیا۔
زہرہ آپا، اپنے شوہر کے ساتھ ہندوستان ہی میں رہیں۔ انہوں نے بی بی سی سے نشر ہونے والے کئی ڈراموں میں کام کیا ۔ جمیز آوری کی فلموں میں بھی کام کیا۔ بمبئی میں بے شمار فلموں میں کام کیا۔ کبھی کسی کردار کو قبول کرتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوئیں ۔ پرتھوی راج کپور سے لیکر رنبیر کپوریعنی کپورخاندان کی چارنسلوں تک کام کرتی رہیں۔1960سے1988تک گاہے بگاہے بی بی سی کے فلموں اور ڈراموں میں کام کرتی رہیں۔
مدیحہ گوہر اور شاہد محمود ندیم نے ان دونوں بہنوں کی زندگی کی تفاصیل پر مبنی ایک ڈرامہ بنایا عنوان تھا ’’ ایک تھی نانی‘‘ اس ڈرامے میں ڈانس ، میوزک ، مکالمے سب ان دونوں بہنوں کی زندگی سے متعلق تھے۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے ہر شہر میں علاوہ ازیں بھارت میں بھی اسٹیج کیا گیا ۔ ہمیشہ ہی پسند کیاگیا ۔ زہرہ آپا کی دو اولادیں ہیںایک بیٹا اور ایک بیٹی اور بہت سے پڑپوتےاور نواسیاں ہیں۔ ان کی بیٹی کرن، انڈیا کی بہت مشہور ڈانسر ہے اور دنیا بھر میں پرفارم کرتی ہے۔ زہرہ آپا کو 1998میں پدم شری انعام دیا گیا اور 2010میں بھارت کاسب سے بڑا اور منفرد انعام دیا گیا ۔ جس کا نام تھا ’’ پدم شری کالیہ اس سمان ‘‘
زہرہ آپا سے میری ملاقات تیس برس سے تھی۔مدیحہ گوہر اور عذرا آپا ، یہ دورشتے تھے اور تیسرا رشتہ فرخ نگار عزیز کا تھا۔ جب بھی میں دلی جاتی تووہ آئی ۔ آئی۔ سی میں ایک کھانا ضرور کرتی تھیں۔ فلموں میں کام کرنے کے لئے انہوں نے کبھی کوئی کردار نہیں مانگا اور جو کردار ملا اسکو ادا کرتے ہوئے نخرہ نہیں کیا ۔ زہرہ آپا نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہاں کے معاشرے اور فلمی دنیا نے ان کو بے پناہ عزت دی۔ بقول امیتابھ بچن، زہرہ آپا کے ساتھ کام کرتے ہوئے نہ کبھی ڈرلگا اور نہ کبھی ایسا الگا کہ کسی ماں کے علاوہ کسی کردار کے ساتھ کام کررہے ہوں عذرا بٹ، لاہور منتقل ہوگئیں۔ ڈراموں میں ماں کا کردار ایسے کرتی تھیں کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ جب ’’ ڈرامہ : ایک تھی نانی ‘‘ کرتی تھیں تبھی زہرہ آپا سے ملاقات ہوتی تھی کہ ادھر زہرہ آپا فلموں میںمصروف اور ادہر عذرا آپا ، ڈراموں میں زہرہ آپا کی 102ویں سالگرہ پر ایک بہت بڑا کیک کاٹا گیا۔ بہت لوگ جمع تھے۔ آپ نے کیک پر ایسا چھری کے ساتھ وار کیا جیسے موت کو بھگا رہی ہوں۔ وہ ہمیشہ ہی اسطرح کیک کاٹا کرتی تھیں زندگی نے ایسے وار بہت سہے ۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ شرارت رہتی تھی۔ زمین پر پھسڈی مار کر بیٹھا کرتی تھیں ۔ ایک دن کرن کو کہا ’’ مجھے کچھ عجیب سالگ رہا ہے ‘‘ کرن نے پوچھا ’’ کیا ڈاکٹر کوبلاؤں‘‘ بولیں ’’نہیں نہیں ‘‘ ابھی تو دس برس اور جینا ہے ‘‘ اگلے دن کہا مجھے اسپتال لے جاؤ پوچھو ڈاکٹروں سے کیا چیز تنگ کررہی ہے ڈاکٹروں نے کہا کچھ انفکیشن ہے ایک آدھ دن میں ٹھیک ہوجائے گا ۔
بس اسی دن چار بجے ، زندگی سے ناراض ہوگئیں ویسے ہی پرسکون جیسے زندگی ہوتی تھیں ۔ یو این ۔ ایف۔پی نے انکو زمین کی لاڈلی کا خطاب دیا تھا یہ سچ ثابت ہوگیا۔
تازہ ترین