آج گرم ہوتی ہوئی سیاست پر لکھنا چاہ رہا تھا مگر قسمت مجھے راولا کوٹ لے آئی ہے اگلا کالم سیاست پر لکھوں گا کہ تحریک انصاف کی طرف سے جاری کردہ پوری کتاب میرے سامنے ہے۔ یہ کتاب جس میں دھاندلی کے خلاف بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ ان چشم کشا رپورٹوں سے متعلق پھر کسی روزلکھوں گا فی الحال راولا کوٹ چلتے ہیں جسے چاروں جانب سے حسن نے گھیر رکھا ہے۔ جسے ہر طرف سے حسن نے گھیر رکھا ہواس کے حسن کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔
اس خوبصورت علاقے کے بارے میں کئی مرتبہ لکھتے لکھتے رہ گیا کہ یہاں موضوعات سیاست دن رات بدلتے رہتے ہیں ۔اس مرتبہ میں راولا کوٹ خوشی سے نہیں دکھی دل کے ساتھ گیا تھا، دراصل میں سردار حبیب خان کی تدفین کیلئے گیا تھا مگر یہ دکھی دل اس مرتبہ راولا کوٹ کے حسن کا اتنا گرویدہ ہوا کہ ’’دل ہے کہ بھولتا نہیں‘‘ آنکھوں کے راستے دل میں اترے ہوئے حسن کوکون بھول سکتا ہے میں پہلے آپ کو سردار حبیب خان کے بارے میں آگاہ کردوں سردار صاحب پڑھنے کیلئے کراچی گئے اور پھر وہیں کے ہوکے رہ گئے۔ ان کی اولاد کو راولا کوٹ کا کم کم پتہ ہے کیونکہ سردار صاحب کے بچے کراچی میں پیدا ہوئے، وہیں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر کوئی دیس میں رہا توکوئی پردیس جابسا۔ زیادہ پردیس جابسے ۔ سردار صاحب کو موت گھیر کر عید کے موقعہ پر راولا کوٹ لے آئی اور پھر اس نے انہیں جانے نہ دیا ایک حادثے میں وہ زندگی کوہار کرموت کی بانہوں میں چلے گئے اور پھر ایک دوپہر کو راولا کوٹ کے گاؤں ٹوپہ کی ایک قبر نے انہیں سمیٹ لیا۔ بس اب گورستان ان کا مسکن ہے۔ خدائے لم یز ل انہیں جوار رحمت میں کوئی مقام عطا فرمائے کہ صاحب دل آدمی تھے۔
اسلام آباد سے ایک سودس کلو میٹر کی مسافت پر راولا کوٹ چاروں سمت سبزہ سمیٹے آباد ہے۔ جدھر دیکھو سبزے نے بانہیں کھول رکھی ہوتی ہیں، انسان اس سبزے میں کھوکے رہ جاتا ہے کبھی سبزے کے پاؤں دیکھتا ہے تو کبھی زلفوں کودیکھتا ہوا چوٹی تک جا پہنچتا ہے اسلام آباد سے سہالہ، کہوٹہ سے ہوتا ہوا راستہ بل کھاتے ہوئے راولا کوٹ جا پہنچتا ہے۔ کہوٹہ کے ایک گاؤں نارا مٹور میں ہماری عزیز داری ہے یہ گاؤں جرنیلوں کاگاؤں ہے خیر کہوٹہ سے آگے آزاد پتن تک سڑک عمدہ نہیں کہ یہ حصہ پنجاب میں ہے مگر جونہی آپ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں ایک شاندار سڑک آپکی منتظر ہوتی ہے، پہاڑ پیروں سےسرتک سبزے سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ چیٹر کے دراز قد درخت خود حسن کوتھامے نظر آتے ہیں ان لمبے درختوں کے قدموں میں کہیں اخروٹ توکہیں سیب کے درخت ہیں کہیں ناشپاتی، آلوبخارا سمیت خوبانی کے درخت ایستادہ نظر آتے ہیں۔ اس قدرتی خوبصورتی میں یہاں کے خوبصورت لوگ آباد ہیں۔ یہاں زیادہ تر سدھن یعنی سدوزئی آباد ہیں ان لوگوں کو تعلیم کا بڑا شوق ہے اس شوق میں یہ لوگ اس قدر آگے ہیں کہ ایک حالیہ سروے میں پونچھ راولا کوٹ پہلے، اسلام آباد دوسرے اور ڈیرہ بگتی آخری نمبر پر ہے یہ نمبر شرح خواندگی میں اسلام آباد ، کراچی یالاہور آگے ہوگا مگر حیرت ہے کہ پونچھ راولا کوٹ نمبر لے گیا رہی بات ڈیرہ بگتی کی تواس کا نمبر آخری ہی آنا تھا کیونکہ ڈیرہ بگتی کے لوگوں کے شوق اور ہیں جبکہ پونچھ راولا کوٹ کے لوگ تو اپنے غریبوں کے بچوں کی تعلیم کیلئے بھی پرانے وقتوں میں ’’ ایک مٹھی آٹا ‘‘ مہم چلاتے تھے خواندگی کا اظہار شخصیات سے بھی ہوتا ہے مثلاً
ا قو ا م متحدہ میں ہمارے مندوب مسعود خان کا تعلق ٹوپہ راولا کوٹ سے ہے جبکہ ہمارے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کاگاؤں’’ متیال میرا‘‘ بھی راولا کوٹ کا حصہ ہے ۔ وہ نہایت قابل اور سمجھ دار خاتون ہیںان کی قابلیت میں شبہ نہیں ۔ اس کے علاوہ وہ روحانیت کی بھی پیروکار ہیں اور انہیں روح کی غذا پر بھی دسترس حاصل ہے۔ آج ان کی صورت میں دفتر خارجہ کو ایک بہت اچھا ترجمان ملا ہے۔ وہ انتہائی مشکل حالات میں یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔ اور انہوں نے اپنا یہ کام خوب نبھایا ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر ریاست سردار یعقوب کابسیرا خوبصورت مقام تولی پیر کے پاس ہے آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار ابراہیم خان، ٹوپہ راولا کوٹ کے رہائشی تھے انہیں غازی ملت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سردار ابراہیم خان تیس سال کی عمر میں صدر بنے اور پھر عمر کے آخری حصے میں بھی صدر بنے یوں وہ نوجوان ترین صدر بھی تھے اور معمر ترین صدر بھی ۔ وہ چار مرتبہ صدر بنے ۔ آزادی کے اتنے عاشق تھے کہ 1947ء میں اپنے بچوں کوسری نگر چھوڑ کر خود جہاد میں شریک ہوگئے سالار بنے اور پھر قسمت نے انہیں سالار اعلیٰ بنادیا اب ان کے فرزند خالد ابراہیم سیاست میں سرگرم ہیں سابق صدر آزاد کشمیر ریٹائرڈ جنرل سردار محمد انور بھی راولا کوٹ کے تھے ساتھ ہی تو جنرل عزیز کا پلندری ہے ، جنرل عزیز کو مشرف دور میں خاص اہمیت رہی ایک سابق جرنیل رحیم خان اور ان کے بھائی حبیب خان راولا کوٹ کے تھے، حبیب خان پاکستان بینکنگ کونسل کے چئیرمین رہے ۔ آزاد کشمیر کے موجودہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سردار عابد حسین عابد کا خوبصورت گاؤں ’’ دمنی‘‘ راولا کوٹ کے پاس ہی توہے عوامی تحریک کے مرکزی رہنما سردار منصور بھی راولا کوٹ کے ہیں۔
خواتین وحضرات ! میں ایک تاریخی واقعہ بیان کرتا ہوں کہ یہ واقعہ بھی راولا کوٹ سے جڑا ہو اہے راولا کوٹ میں ایک خوبصورت جگہ جنڈالی ہے۔ 23مارچ1940ء کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے وقت جموں وکشمیر کا جو وفد شریک تھا اس کی قیادت مولانا غلام حیدر جنڈالوی کررہے تھے لاہور میں ہر مقرر کیلئے دودومنٹ مخصوص تھے مگر جب مولانا نے تقریر شروع کی تو قائداعظم نے کہا کہ مولانا جتنی دیر چاہیں تقریر کریں۔ اس طرح مولانا نے چالیس منٹ تقریر کی۔راولا کوٹ موسم اور انسانوں کے اعتبار سے خوبصورت ہے یہاں سال میں تین مہینے برف باری ہوتی ہے جبکہ آج کل بادلوں کا پہاڑوں پر بسیرا ہے۔ بادل ہواؤں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ یہیں بنجوسہ جھیل ہے۔ بھٹو صاحب یہاں آیا کرتے تھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں سیاحت پر توجہ ہی نہیں دی گئی ۔ کاش ایسا ہوتا ، کاش اس طرف توجہ دی جاتی ۔کسی ایک شہر میں میڑو نہ چلائی جاتی اور وہ رقم راولا کوٹ جیسے علاقوں پر خرچ کردی جاتی تاکہ سیاحت ترقی کرتی ہمیں قدرت نے بہت خوبصورت علاقے عطا کیئے ہیں مگر ہمارا خوبصورتی سے کیا مطلب ۔ بقول کرامت بخاری
ابھی کچھ ٹھوکریں کھانا ہیں باقی
ابھی راہوں میں زیروبم بہت ہیں