کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں قائم دورکنی بینچ نے سندھ بھرکے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے سے متعلق درخواست پر متعلقہ حکام کی جانب سے جواب داخل نہ کرانے پر سخت اظہار ناراضی کرتے ہوئے اپنی آبزوریشن میں کہا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کے معاملات پھر پیچیدہ ہوچکے ، حکومت کو ہرتین ماہ میں سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ پیش کرنےکا حکم دیا تھا، حکومت کی غفلت سمجھ سے بالاترہے،منگل کو سماعت کے موقع پر سرکاری وکیل نے جواب داخل کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کی جس پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا اور آئندہ سماعت پر جواب داخل کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے سماعت 8ستمبر کے لیے ملتوی کر دی ہے ، واضح رہے کہ 27اگست 2015کو محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکریٹری نے عدالتی عمل درآمد رپورٹ جمع کروائی تھی جس میں عدالت کوبتایا گیا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد سندھ بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بڑھانے کے لئے اقدامات کر لئے گئے ہیں اس سلسلے میں پلاننگ کمیٹی ، محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مشترکہ طور پر پہلے مرحلے میں حساس قرار دینے والے والے اسکول ، کالجز کے 8417یونٹس میں باونڈری وال بنائی جائیں گی اور سیکورٹی کے دیگر اقدامات کیے جائیں گے اس سلسلے میں پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24اگست کوتعلیمی اداروں کے ساتھ اجلاس میں اسلحہ لائسنس فراہم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ تعلیمی اداروں سے اسلحہ لائسنس کی درخواستیں وصول کرکے محکمہ داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہیں جو اسلحہ لائسنس جاری کر ے گا ۔ محکمہ تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے مزید اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں جس میں ایمرجنسی کی صورت میں اسکول انتظامیہ کو ہائی الرٹ ایس ایم ایس کے لئے سروس فراہم کی جائے گی جس کے لئے نجی کمپنی سے معاہدہ طے پاگیا ہے،قبل ازیں دائر درخواست میں پائلر نے موقف اختیار کیا کہ آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا بد ترین واقعہ رونما ہو چکا ہے ،حساس اداروں کے مطابق کراچی کے تعلیمی اداروں کو سنگین سیکورٹی خطرات لاحق ہیں ،کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسکولوں سے متعلق ہائی آلرٹ جاری کر دیا گیا ہے حکومت نے 12جنوری کواسکول کھولنے کے احکامات جاری کئے اور اسکولوں کی بڑی تعداد کھل چکی ہے تاہم بعض تعلیمی ادارے اور اسکول سیکورٹی کے پیش نظر اب تک نہیں کھل سکے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروںبچوں کا تعلیمی سال متاثر ہونے کا خدشہ ہے ،خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں موثر طریقہ کار کے تحت اسکولوں کے اطراف میں دیواریں ،خاردار تاریں اور کیمرے نصب کیے جاچکے ہیں،لاہور میں پولیس نے اسکولوں کو چار کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے اور ان تمام اسکولوں کی سیکیورٹی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کررہے ہیں جبکہ سیکورٹی سے متعلق معیار بھی طے کیا گیا ہے تاہم بد قسمتی سے سندھ میں اسکولوں کی سیکورٹی سے متعلق نام و نہاد انتظامات کیے گئے ہیں جو طے کردہ معیار پر پورا نہیں اترتے ،حکومت تعلیمی اداروں کو سیکورٹی فراہم کرنے میں پر ناکام ہوچکی ہے ،حکومت کے اس امتیازی رویے کی وجہ سے صوبے بھر کے لاکھوں بچوں کی جان کو خطرہ ہے جبکہ دوسری جانب حکومت وی آئی پیز کی سیکورٹی پر ماہانہ کروڑوں پر خرچ کررہی ہے ،بچوں کو سیکورٹی فراہم نہ کرکے حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے لہذااستدعا ہے کہ کارروائی عمل میں لائی جائے ۔